حجتہ الاسلام امام محمد بن محمد الغزالی الطوسی علیہ الرحمہ


نام و نسب:

        آپ کی کنیت ابو حامد، لقب حجۃ الاسلام اور نامِ نامی، اسمِ گرامی محمد بن محمد بن احمد طوسی غزالی رحمہم اللہ تعالیٰ ہے۔

ولادت با سعادت:

        آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۴۵۰ھ خراسان کے شہر طوس میں پیدا ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد گرامی اسی شہر میں اُون کات کر بیچا کرتے تھے۔

علمی زندگی:

        حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نے ابتدائی  تعلیم اپنے شہر میں حاصل کی اور  فقہ کی کتابیں حضرت احمد بن محمد راذ کانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پڑھیں۔ پھر 20سال سے کم عمر میں جرجان میں امام ابو نصر اسماعیلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر طوس واپس تشریف لائے اور تین سال وہیں ٹھہرے رہے۔ اس کے بعد ۴۷۳ھ نیشاپور میں امام الحرمین میں امام جوینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ طے کیا اور ان سے اصولِ دین، اخلاقی مسائل، مناظرہ، منطق، حکمت اور فلسفہ، وغیرہ میں مہارتِ تامہ حاصل کی اور ان میں سے ہر فن میں بہترین اور مدلَّل کتب تصنیف فرمائیں۔ (ایک موقع پر امام الحرمین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ ارشاد فرمایا کہ ’’غزالی علم کے دریائے ذخّار  ہیں۔‘‘)

اساتذہ کرام:

        آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے چند  مشہور اساتذہ کے نام یہ ہیں:  فقہ میں علامہ احمد بن محمد راذکانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ، امام ابو نصر اسماعیلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، امام الحرمین ابو المعالی امام جوینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حافظ عمر بن ابی الحسن رواسی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ تصوف میں ابو علی فضل بن محمد بن علی فارمدی  طوسی۔ اسی طرح آپ کے مشائخ میں یوسف سجاج، ابو سھل محمد بن احمد  عبید اللہ حفصی مروزی، حاکم ابو الفتح نصر بن علی بن احمد  حاکمی طوسی، ابو محمد عبداللہ بن محمد بن احمد خواری، محمد بن یحییٰ ابن محمد  سجاعی زوزنی، حافظ ابو الفتیان عمر بن ابی الحسن رؤاسی دہستانی، نصر بن ابراہیم مقدسی وغیرہ شامل  ہیں۔ اور علمِ کلام و جدل میں آپ  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مشائخ کے بارے میں علم نہ ہوسکا اور فلسفہ میں آپ کا کوئی استاذ نہ تھا جیسا کہ اپنی کتاب المنقذ من الضلال میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خود صراحت فرمائی ہے۔

تلامذہ:

        حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بے شمار شاگرد تھے جن میں سے اکثر اپنے وقت کے متبحرعالم، فقیہ، محدث، مفسر اور مصنف کی حیثیت سے معروف تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شاگردانِ گرامی میں محمد بن تومرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، علامہ ابو بکر عربی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، قاضی ابو نصر احمد بن عبداللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، امام ابو سعید یحییٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، ابو طاہر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، امام ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، ابو طالب عبدالکریم رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، جمال الاسلام ابو الحسن علی بن مسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔

مدرسہ نظامیہ میں تدریس:

        ۴۷۸ھ میں جب حضرت سیدنا امام الحرمین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وصال ہوگیا تو حضرت سیدنا امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ملک شاہ سلجوقی کے وزیر نظام الملک کے پاس تشریف لے گئے۔ اس کی مجلس  ان دنوں اہل علم کی مجلس ہوتی تھی۔ وہاں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مختلف علماء سے مناظرے کیے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان پر غالب آئے اور سارے عالم میں مشہور ہوگئے۔ وزیر نظام الملک  نے بغداد میں مدرسہ نظامیہ کی بنیاد رکھی اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۴۸۴ھ میں وہاں استاذ مقرر ہوئے، لوگوں میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بہت مقبولیت اور احترام حاصل ہوا۔ حضرت سیّدنا امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ چار سال بغداد میں تدریس و تصنیف میں مشغول رہے۔ پھر آپ نے  تدریس کے لیے اپنے بھائی کو اپنا قائم مقام بنایا اور خود حج کے ارادے سے مکہ معظمہ روانہ ہوگئے۔

دنیا سے بے رغبتی:

پھر حضرت سیدنا امام محمد غزالی علیہ  رحمۃ اللہ الوالی کا دل دنیا سے اُچاٹ ہوگیا اور مکمل طور پر فکرِ آخرت میں منہمک ہوگئے اور ۴۸۹ھ میں دمشق پہنچے اور کچھ دن وہاں قیام فرمایا۔ پھر ایک عرصہ بیت المقدس میں گزارا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دوبارہ دمشق واپس تشریف لائے اور جامع دمشق(یعنی جامع اُموی) کے مغربی  منارے پر ذکر و فکر اور مراقبے میں مشغول رہے (یہ شام کی ایک بڑی یونیورسٹی ہے)۔ امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شام میں تقریباً دس سال رہے۔ پھر حجاز، بغداد اور نیشا پور  کے درمیان سفر جاری رہا۔ بالآخر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ طوس واپس تشریف لائے اور اپنے گھر کو لازم پکڑ لیا اور تادمِ آخر وعظ و نصیحت، عبادت اور تدریس میں مشغول رہے۔

 تصانیف:

حضرت سیدنا امام محمد غزالی علیہ  رحمۃ اللہ الوالی  نے کئی  علوم و فنون  میں سینکڑوں کتب تصنیف کیں، جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:

فقہ شافعی:

۱۔تعلیقہ فی فروع المذھب ۲۔بیان القولین ۳۔الوجیز فی الفروع ۴۔الوسیط المحیط باقطار البسیط ۵۔البسیط فی فروع المذھب ۶۔خلاصہ الوسائل إلی علم المسائل فی فروع المذھب ۷۔اختصار المختصر ۸۔غایۃ الغور ۹۔مجموعہ فتاوٰی وغیرھا۔

اصولِ فقہ:

۱۰۔ تحسین المأخذ ۱۱۔مفصّل الخلاف فی اصول القیاس ۱۲۔مأخذ فی الخلافیات ۱۳۔شفاء العلیل ۱۴۔مستخل فی علم الجدل ۱۵۔المنخول ۱۶۔ المستصفی۔

منطق:

۱۷۔محک النظر ۱۹۔ میزان العمل۔

فلسفہ:

۲۰۔مقاسد الفلاسفۃ۔

علم کلام:

۲۱۔ تھافۃ الفلاسفۃ ۲۲۔المنقذ من الضلال والمفصح عن الاحوال ۲۳۔ إلحام العوام عن علم الکلام ۲۴۔الإقتضاد فی الاعتقاد ۲۵۔المستظھری فی الرد علی الباطنیۃ ۲۶۔فضائح الاباحیۃ وحقیقۃ الروح ۲۷۔الرسالۃ القدسیہ ۲۸۔ تفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ ۲۹۔مواھم الباطنیۃ  ۳۰۔القول الجمیل فی  رد علٰی من غیر الانجیل ۳۱۔القسطاس المستقیم۔

تصوف و اخلاق:

۳۲۔منھاج العابدین الٰی جنّۃ ربِّ العالمین ۳۳۔کیمیائے سعادت ۳۷۔جواھر القرآن ۳۸۔جواھر القدس فی حقیقۃ النفس ۳۹۔مشکوٰۃ الانوار فی  لطائف الاخیار ۴۰۔مزاج السالکین  ۴۱۔نصیحۃ الملوک ۴۲۔ بدایۃ الھدایۃ ۴۳۔ایُّھا الولد۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بعض مشہور کتب کے  نام یہ ہیں: ۴۴۔المقصد الاسنٰی فی شرح اسماء الحسنٰی ۴۵۔اربعین ۴۶۔المرشد الامین ۴۷۔تلبیس ابلیس (علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اسی نام سے ایک کتاب لکھی ہے) ۴۸۔قانون الرسول  ۴۹۔عجائب صنع اللہ ۵۰۔القربۃ الٰی اللہ ۵۱۔المجلس الغزالیۃ ۵۲۔تنبیہ الغافلین ۵۳۔الفرق بین الصالح وغیر الصالح  ۵۴۔مکاشفۃ القلوب ۵۵۔اسرار الحروف والکلمات۔

مقام و مرتبہ:

حضرت سیدنا علامہ اسماعیل حقی علیہ اللہ الجلی سورۂ طٰہٰ، آیت نمبر ۱۸ کے تحت (تفسیر روح البیان، ج ۵، ص ۳۷۴۔ ۳۷۵ پر) نقل فرماتے ہیں: حضرت سیدنا امام راغب اصفہانی قدس سرہ الربانی نے محاضرات میں ذکر فرمایا کہ صاحبِ حزب  البحر عارف باللہ حضرت سیدنا امام شاذلی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں:

“میں مسجد اقصیٰ میں محوِ آرام تھاکہ خواب میں دیکھا مسجد اقصیٰ کے باہر صحن کے درمیان میں ایک تکت بچھا ہوا ہے اور لوگوں کا ایک جمعِ عظیم  گروہ در گروہ داخل ہورہا ہے، میں نے پوچھا: ‘‘یہ جمعِ غفیر کن لوگوں کا ہے؟ مجھے بتایا گیا: ‘‘یہ انبیاء ورسل کرام علی نبینا وعلیھم الصلوٰۃ والسلام ہیں جو حضرت سیدنا حسین حلاج رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ظاہر ہونے والی ایک غلط بات پر ان کی سفارش کے لیے حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہیں۔’’ پھر میں نے تخت کی طرف دیکھا تو حضور  نبی کریم، رءوف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس پر جلوہ فرما ہیں اور دیگر انبیاء کرام جیسے حضرت سیدنا ابراہیم، حضرت سیدنا موسیٰ، حضرت سیدنا عیسیٰ اور حضرت سیدنا نوح علیٰ نبینا وعلیھم الصلوٰۃ والسلام زمین پر بیٹھے ہیں۔ میں ان کی زیارت کرنے لگا اور ان کا کلام سننے لگا۔

اسی دوران حضرت سیدنا موسی علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام  نےہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرتے ہوئے عرض کی: ‘‘آپ کا فرمان ہے: عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَأنْبِیَاءِ بَنِیْ إسْرَائِیْلَ یعنی میری امّت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔ ’’ لہذا  مجھے ان میں سے کوئی دکھائیں۔ تو اللہ کے پیارے حبیب لبیب  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک سوال کیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دس جواب دیئے۔تو حضرت  سیدنا موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جواب سوال کے مطابق ہونا چاہیے، سوال ایک کیا گیا اور تم نے دس جواب دیئے  تو حضرت سیدنا امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نے عرض کی: ‘‘جب اللہ عزوجل نے آپ سے پوچھا تھا:‘‘وَمَا تِلْکَ بِیَمِنِکَ ترجمۂ کنزالایمان ‘‘تیرےہاتھ میں کیا ہے’’۔  تو اتنا عرض کردینا کافی تھا کہ ‘‘یہ میری چھڑی ہے’’۔ مگر آپ نے اس  کی کئی خوبیاں بیان فرمائیں۔’’ (یہ واقعہ فتاوی رضویہ ج ۲۸، ص ۱۴۱۰ اور النبراس شرح شرح العقائد ص ۲۴۷ پر بھی موجود ہے)

علماء کرام  فرماتے ہیں کہ گویا امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی، حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا وعلیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کر رہے  ہیں کہ ‘‘جب آپ کا ہم کلام، باری تعالیٰ تھا تو آپ نے وفورِ محبت اور غلبۂ شوق میں اپنے کلام کو طول دیا تا کہ زیادہ سے زیادہ ہم کلامی کا شرف حاصل ہوسکے اور اس وقت مجھے آپ سے ہم کلام ہونے کا موقع ملا ہے اور کلیم خدا عزوجل سے گفتگو   کا شرف حاصل ہوا ہے اس لیے میں نے اس شوق و محبت سے کلما کو طوالت دی ہے’’۔ (کوثر الخیرات، ص ۴۰)

وصال پُرملال:

حضرت سیدنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی تقریباً نصف صدی آسمانِ علم و حکمت  کے  اُفق پر آفتاب بن کر چمکتے رہے۔ بالآخر ۵۰۵ھ طوس میں وصال فرماگئے۔ بوقتِ وصال آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عمر مبارک 55 سال تھی۔

خدا رحمت کنند ایں بند گان پاک طینت را

(ماخوذاز اتحاف السادۃ المتقین، تفسیر روح البیان، فتاوی رضویہ، النبراس شرح شرح العقائد، کوثر الخیرات وغیرھا)

Menu