1. اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

اسمِ گرامی:    سیّدہ عائشہ۔

اَلقاب:         صدّیقہ، عفیفہ، طیّبہ،حَبِیْبَۃُ  رَسُوْلِ اللہ، حَبِیْبَۃُ الْحَبِیْب، حُمَیْرَاء۔

کنیت:           اُمِّ عبداللہ۔

خطاب:         اُمّ المؤمنین۔

والدِ گرامی:   سیّدنا ابو بکر صدّیق﷜۔

والدۂ محترمہ:  آپ کی والدۂ محترمہ کا نام ’’زینب‘‘ اور لقب ’’اُمِّ رومان‘‘ تھا۔

نسب:

اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:

سیّدہ عائشہ بنتِ ابوبکر صدّیق بن ابو قحافہ بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مُرّہ بن کعب بن لوی۔

آپ کی والدۂ ماجدہ  کا سلسلۂ نسب حضورِ اکرمﷺ سے کنانہ پر ایک ہوجاتا ہے۔

ولادت:

حضرت عائشہ کی تاریخِ ولادت سے تاریخ وسیر کی کتب خاموش ہیں۔ بعض مؤرّخین نے 5؍نبوی سال کے آخری حصّے میں ولادت تحریر کی ہے۔(سیرتِ عائشہ، ص23)

سیرت وخصائص:

آپ امیر المؤمنین حضرت سیّدنا  ابوبکر صدّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نورِ نظر اور دخترِنیک اختر ہیں۔ حضور نبی اکرمﷺنے اعلانِ نبوّت کے دسویں سال ماہِ شوّال میں ہجرت سے تین سال قبل نکاح فرمایا اور شوّال 2ھ میں مدینۂ منوّرہ کے اندر آپ کاشانۂ نبوّت میں داخل ہو گئیں اور نو برس تک حضورﷺ کی صحبت سے سرفراز  رہیں۔ اَزواجِ  مطہرات میں آپ  ہی  کنواری تھیں اور بارگاہِ نبوّت میں محبوب ترین بیوی تھیں۔

حضورِ اقدس ﷺ کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا  کے بارے میں ارشاد ہے:

’’کسی بیوی کے لحاف میں میرے اوپر وحی نازل نہیں ہوئی مگر عائشہ جب میرے ساتھ بسترِ  نبوّت پر سوئی ہوئی ہوتی ہیں تو اُس حالت میں بھی مجھ پر وحیِ الٰہی اترتی رہتی ہے۔‘‘(بخاری، جلداوّل، ص۵۳۲، فضلِ عائشہ)

بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ حضورِاکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمایا:

’’تین راتیں میں خواب میں یہ دیکھتا رہا کہ ایک فرشتہ تم کو ایک ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر میرے پاس لاتا رہا اور مجھ سے یہ کہتا رہا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ جب میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو ناگہاں وہ تم ہی تھیں۔ اس کے بعد میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر یہ خواب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ اس خواب کو پورا کر دکھائے گا۔‘‘(مشکوٰۃ، جلد۲، ص۵۷۳)

فقہ و حدیث کے علوم میں اَزواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن کے اندرآپ کا درجہ بہت ہی بلند ہے۔ دوہزار دو سو دس (2210) حدیثیں آپ نے حضورﷺ سے روایت فرمائی ہیں۔ آپ کی روایت کی ہوئی حدیثوں میں سے ایک سو چوہتر (174) حدیثیں ایسی ہیں جو بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں ہیں اور چوّن  (54) حدیثیں ایسی ہیں جو صرف بخاری شریف میں ہیں اور اڑسٹھ حدیثیں وہ ہیں جن کو صرف امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں تحریر کیا ہے۔ ان کے علاوہ باقی حدیثیں احادیث کی دوسری کتابوں میں مذکور ہیں۔

ابنِ سعد نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے نقل کیا ہے کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرمایا کرتی تھیں:

مجھے تمام ازواجِ مطہرات پر ایسی دس فضیلتیں حاصل ہیں جو دوسری اَزواجِ مطہرات کو حاصل نہیں ہوئیں:

  1. حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے میرے سوا کسی دوسری کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔
  2. میرے سوا  اَزواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کے ماں باپ دونوں مہاجر ہوں۔
  3. اﷲ تعالیٰ نے میری براء ت اور پاک دامنی کا بیان آسمان سے قرآن میں نازل فرمایا۔
  4. نکاح سے قبل حضرت جبریل نے ایک ریشمی کپڑے میں میری صورت لا کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دکھلا دی تھی اور آپ تین راتیں خواب میں مجھے دیکھتے رہے۔
  5. میں اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک ہی برتن میں سے پانی لے لے کرغسل کیا کرتے تھے۔

یہ شرف میرے سوا  اَزواجِ مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا۔

  1. حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نمازِتہجد پڑھتے تھے اور میں آپ کے آگے سوئی رہتی تھی۔ اُمّہات المؤمنین میں سے کوئی بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمکی اس کریمانہ محبّت سے سرفراز نہیں ہوئی۔
  2. میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمکے ساتھ ایک لحاف میں سوئی رہتی تھی اور آپ پر اللہ﷯ کی وحی نازل ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ اعزازِ خداوندی ہے جو میرے سواحضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمکی کسی زوجۂ مطہرہ کو حاصل نہیں ہوا۔
  3. وفاتِ اَقدس کے وقت، میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمکو اپنی گود میں لیے ہوئے بیٹھی تھی اور آپ کا سرِ  اَنور میرے سینے اور حلق کے درمیان تھا اور اِسی حالت میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمکا وصال ہوا۔
  4. حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمنے میری باری کے دن وفات پائی۔
  5. حضورِ  اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمکی قبرِ اَنور خاص میرے گھر میں بنی۔(زرقانی، جلد۳، ص۳۲۳)

عبادت میں بھی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا مرتبہ بہت ہی بلند ہے۔ آپ کے بھتیجے حضرت امام قاسم بن محمد بن ابوبکر صدّیق رضی اللہ تعالٰی عنہمکا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاروزانہ بلا ناغہ نمازِ تہجد پڑھنے کی پابند تھیں اور اکثر روزہ دار بھی رہا کرتی تھیں۔ سخاوت اور صدقات و خیرات کے معاملے میں بھی تمام اُمّہات المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہن میں خاص طور پر بہت ممتاز تھیں۔

اُمِ دُرّہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکہتی ہیں:

’’ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے پاس تھی اُس وقت ایک لاکھ درہم کہیں سے آپ کے پاس آئے، آپ نے اُسی وقت اُن سب درہموں کو لوگوں میں تقسیم کر دیا اور ایک درہم بھی گھر میں باقی نہیں چھوڑا۔ اُس دن میں اور وہ روزہ دار تھیں، میں نے عرض کیا کہ آپ نے سب درہموں کو بانٹ دیا اور ایک درہم بھی باقی نہیں رکھا  کہ آپ گوشت خرید کرروزہ افطار کرتیں۔‘‘

 تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہانے فرمایا:

’’تم نے اگرمجھ سے پہلے کہا ہوتا تو میں ایک درہم کا گوشت منگا لیتی۔‘‘(الطبقات الکبریٰ لابن سعد ، باب ذکر ازواج رسول اللہ ، ج۸، ص ۵۰۔۵۱)

وصال:

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا وصال شبِ 17؍ رمضان المبارک 57ھ یا 58ھ  کو مدینۂ منوّرہ میں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور  آپ جنّت البقیع میں آرام فرما ہیں۔(سیرتِ مصطفیٰﷺ، ص662)

کتب

Menu