شب برأت کی اہمیت و فضیلت 


ماہ شعبان کی پندرہویں رات کو ’’شب  برأت‘‘ کہا جاتا ہے شب کے معنی ہیں رات اور برأت کے معنی بری ہونے اورقطع تعلق کرنے کے ہیں۔ چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کو شب  برأت کہتے ہیں۔ اس رات کو لیلتہ المبارکۃ یعنی برکتوں والی رات، لیلتہ الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلتہ الرحمتہ رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہاجاتا ہے۔

 محدث دیلمی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں، ’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے فرمایا، میں نے حضور اکرم محمد رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سُنا، اللہ تعالیٰ چار راتوں میں بھلائی کی مہر لگاتا ہے۔ (۱) شب عید الاضحی (۲) شب عید الفطر (۳) ماہ رجب کی پہلی شب (۴) شب نصف شعبان (مثیر الغرام الساکن الی اشرف الاماکن لابن الجوزی،رقم الحدیث: 72)

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ’’پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا رد نہیں ہوتی، (۱) رجب کی پہلی رات (۲)نصف شعبان کی رات(۳) جمعہ کی رات (۴۔۵) دونوں عیدوں کی رات۔ (بیہقی،شعب الایمان،حدیث:3711) 

جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یساررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں’’لیلتہ القدر کے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے افضل کوئی رات نہیں‘‘(لطائف المعارف‘صفحہ145)

جس طرح مسلمانوں کے لئے زمین میں دوعیدیں ہیں اسی طرح فرشتوں کے لئے آسمان میں دوعیدیں ہیں ایک شب برأت اوردوسری شب قدر جس طرح مومنوں کی عیدیں عیدالفطر اورعیدالاضحی ہیں فرشتوں کی عیدیں رات کواس لئے ہیں کہ وہ رات کوسوتے نہیں جب کہ آدمی سوتے ہیں اس لئے ان کی عیدیں دن کوہیں(غنیتہ الطالبین‘ صفحہ449)

تقسیم امور کی رات:

ارشادباری تعالیٰ ہوا:

وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿۳﴾ فِیۡہَا یُفۡرَقُ کُلُّ اَمۡرٍ حَکِیۡمٍ ۙ﴿۴﴾(الدخان: 2-4)

قسم ہے اس روشن کتاب کی ، بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتاراہے، بے شک ہم ڈرسنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیاجاتا ہے ہرحکمت والا کام(ترجمۂ کنزالایمان)

’’اس رات سے مرادشب قدر ہے یا شب برأت‘‘(خزائن العرفان)

ان آیات کی تفسیر میں حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوربعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ’’لیلتہ مبارکہ‘‘سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے۔اس رات میں زندہ رہنے والے ‘فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اس روایت کوابن جریر‘ابن منذر اورابن ابی حاتم نے بھی لکھا ہے‘اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے۔(ماثبت من السنہ‘ صفحہ194)

علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوح محفوظ سے نقل کرنے کاآغاز شب برأت سے ہوتا ہے اوراختتام لیلتہ القدر میں ہوتاہے۔(الجامع لاحکام القرآن‘ جلد 16 ‘صفحہ128)

یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر ہیں پھر ان شب میں ان کے لکھے جانے کا کیامطلب ہے؟جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ میں تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ امورہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کیا تم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ آپ فرمائیے۔ارشادہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اورجتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کے(سال بھرکے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اوراس میں لوگوں کامقررہ رزق اتاراجاتاہے۔(مشکوۃ‘جلد 1صفحہ277)

حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں’’شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ ملک الموت کوایک فہرست دے کرحکم فرماتا ہے کہ جن جن لوگوں کے نام اس میں لکھے ہیں ان کی روحوں کوآئندہ سال مقررہ وقتوں پرقبض کرنا‘تواس شب میں لوگوں کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ کوئی باغوں میں درخت لگانے کی فکر میں ہوتا ہے کوئی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے‘ کوئی کوٹھی بنگلہ بنوارہاہوتاہے حالانکہ ان کے نام مردوں کی فہرست میں لکھے جاچکے ہوتے ہیں۔(مصنف عبدالرزاق‘جلد4 ‘صفحہ317‘ماثبت من السنہ صفحہ193)

حضرت عثمان بن محمدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارمدینہﷺ نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کاوقت اس رات میں لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اوراس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کانام مردوں کی فہرست میں لکھاجاچکاہوتاہے۔(الجامع لاحکام القرآن‘جلد16‘صفحہ126 ‘شعب الایمان ‘لبیہقی‘ جلد3صفحہ386)

چونکہ یہ رات گزشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہ الہٰی میں پیش ہونے اورآئندہ سال ملنے واالی زندگی اوررزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لئے اس رات میںعبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کاباعث ہے اورسرکاردوعالمﷺکی یہی تعلیم ہے۔

مغفرت کی رات:

شب برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بے شمارلوگوں کی بخشش فرمادیتا ہے اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضوراکرمﷺ کواپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھاکہ آپﷺ جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اوراس کارسولﷺ تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا ومولیٰﷺ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اورقبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے (ترمذی‘ جلد1صفحہ156‘ابن ماجہ‘ صفحہ100‘مسند احمد‘جلد 6‘صفحہ238 مشکوۃ جلد1‘صفحہ277مصنف ابن ابی شیبہ‘ جلد 1صفحہ237 شعب الایمان للبیہقی‘ جلد3صفحہ379)

شارحین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کوپہنچ گئی۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقامولیٰﷺ نے فرمایا’’شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اوراس شب میں ہرکسی کی مغفرت فرمادیتا ہے سوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کے‘‘(شعب الایمان للبیہقی‘جلد3صفحہ380)

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں اپنے رحم وکرم سے تمام مخلوق کوبخش دیتا ہے سوائے مشرک اورکینہ رکھنے والے کے‘‘۔(ابن ماجہ صفحہ101‘شعب الایمان‘جلد3صفحہ382‘مشکوۃ‘جلد1صفحہ277)

حضرت ابوہریرہ ‘حضرت معاذ بن جبل‘ حضرت ابوثعلبتہ اورحضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ایساہی مضمون مروی ہے(مجمع الزوائد‘جلد8 صفحہ65)

بعض روایت میں چغل خور کا بھی ذکر آیا ہے۔

 حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آقاومولیٰﷺ نے فرمایا’’شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دو اشخاص کے سوا سب مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ایک کینہ پرور اوردوسرا کسی کوناحق قتل کرنے والا‘‘ (مسنداحمد، جلد2 صفحہ176،مشکوۃ‘جلد1 صفحہ278)

امام بیہقی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کابھی ذکر ہے: رشتے ناتے توڑنے والا‘بطورتکبر ازارٹخنوں سے نیچے رکھنے والا‘ماں باپ کانافرمان ‘شراب نوشی کرنے والے۔ (شعب الایمان جلد نمبر3صفحہ 384 )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی طویل حدیث میں ان لوگوں کابھی ذکر ہے جادوگر‘کاہن ‘سودخور اوربدلہ کار‘یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کئے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی‘ پس ایسے لوگوں کوچاہئے کہ اپنے اپنے گناہوں سے جلد ازجلد سچی توبہ کرلیں تاکہ یہ بھی شب برأت کی رحمتوں اوربخشش ومغفرت کے حق دارہوجائیں۔(غنیتہ الطالبین صفحہ449 )

ارشادباری تعالیٰ ہوا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا (التحریم:8)

اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کونصیحت ہوجائے‘‘(ترجمۂ کنزالایمان)

یعنی توبہ ایسی ہونی چاہئے جس کااثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اوراس کی زندگی گناہوں سے پاک اورعبادتوں سے معمورہوجائے‘ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کی۔یارسول اللہﷺ توبتہ النصوح کسے کہتے ہیں ارشاد ہوا بندہ اپنے گناہ پرسخت نادم اورشرمسارہو‘پھربارگاہ الہٰی میں گڑگڑا کر مغفرت مانگے اورگناہوں سے بچنے کاپختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل نہیں ہوسکتا اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزدنہ ہوگا۔

رحمت کی رات:

شب برأت فرشتوں کوبعض اموردیئے جانے اورمسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس کی ایک اورخصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اوردعاؤں کے قبول ہونے کی رات ہے۔

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ کاارشاد ہے‘جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے۔ہے کوئی مغفرت کاطالب کہ اس کے گناہ بخش دوں‘ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں۔اس وقت اللہ تعالیٰ سے جومانگاجائے وہ ملتاہے۔وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے۔سوائے بدکارعورت اورمشرک کے‘‘(شعب الایمان للبیہقی‘ جلد 3صفحہ383)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے آقا ومولیٰ ﷺ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پرنازل ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ‘ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں‘ ہے کوئی رزاق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں‘یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتارہتاہے۔(ابن ماجہ صفحہ100‘شعب الایمان للبیہقی‘جلد3‘صفحہ378‘مشکوۃ جلد1صفحہ278)

یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری حصے میں جیسا کہ کتاب کے آغاز میں شب بیداری کی فضیلت کے عنوان کے تحت حدیث پاک تحریرکی گئی شب برأت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ نداغروب آفتاب ہی سے شروع ہوجاتی ہے گویا صالحین اورشب بیدار مومنوں کے لئے توہررات شب برأت ہے مگریہ رات خطاکاروں کے لئے رحمت وعطااوربخشش ومغفرت کی رات ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پرندامت کے آنسو بہائیں اور رب کریم سے دنیا وآخرت کی بھلائی مانگیں‘اس شب رحمت خداوند ہر پیاسے کوسیراب کردیناچاہتی ہے اورہرمنگتے کی جھولی گوہر مراد سے بھردینے پرمائل ہوتی ہے‘ بقول اقبال‘رحمت الہٰی یہ ندا کرتی ہے۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہرو منزل ہی نہیں

شب بیداری کااہتمام:

شب برأت میں سرکاردوعالمﷺ نے خود بھی شب بیداری کی اوردوسروں کوبھی شب بیداری کی تلقین فرمائی آپﷺ کافرمان عالیشان اوپرمذکورہوا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتوشب بیداری کرو اوردن کوروزہ رکھو‘اس فرمان جلیل کی تعمیل میں اکابر علماء اہلسنّت اورعوام اہلسنّت کاہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ اس رات میں شب بیداری کااہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔

 ابن اسحق نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے بتایا نصف شعبان کی شب رسول اللہﷺ مسجد میں سجدہ کی حالت میں یہ دعا فرما رہے تھے:

’’سَجَدَ لَکَ سَوَا دِیْ وَخَیَالِیْ وَاٰمَنَ بِکَ فَوَا دِیْ وَہٰذِہٖ یَدِیْ وَمَا جَنَیْتُ بِہَا عَلیٰ نَفْسِیْ یَا عَظِیْمًا یُّرْ جیٰ لِکُلِّ عَظِیْمٍ اِغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِیْمَ سَجَدَوَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَصَوَّرَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ ‘‘

ترجمہ: میرے بدن اور میری صورت نے تجھے سجدہ کیا میرا دل تجھ پر ایمان لایا اور یہ میرے ہاتھ ہیں جن سے میں نے خود پر زیادتی کی، اے عظیم! ہر بڑی بات میں اس پر امید کی جاتی ہے، بڑا گناہ معاف فرمادے میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا اس کی صورت بنائی اور کان اور آنکھ بنائے۔

پھر آپﷺ نے سر اٹھایا اور یہ دعا کی:

’’اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ قَلْبًا تَقِیًّا نَقِیًّا مِّنَ الشِّرْکِ بَرِیًّا لَّا کَا فِرًا وَّ لَا شَقِیًّا‘‘

ترجمہ : اے اللہ! مجھے ایسا دل عطا فرما جو پر ہیزگار ہو شرک سے پاک ہو، نیک ہو ….. نہ کافر ہواور نہ ہی بدبخت ہو) پھر دوبارہ سجدہ کیا اور میں نے یہ پڑھتے ہوئے سُنا:

 ’’اَعُوْذُ بِرِضَائِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ بِعَفْوِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیْ ثَنَآئَ عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ اَقُوْلُ کَمَا قَالَ اَخِیْ دَاؤٗدُ اَغْفِرُ وَجْھِیْ فِیْ التُّرَابِ لِسَیِّدِیْ وَحَقَّ لِوَجْہِ سَیِّدِیْ اَنْ یُّغْفَرَ‘‘

ترجمہ: میں تیری ناراضگی سے تیری پناہ مانگتا ہوں تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ تجھ سے تیری پناہ، میں تیری تعریف نہیں کرسکتا بس تو ایسا ہے جیسے کہ تو نے خود اپنی تعریف فرمائی میں وہی کہتاہوں جو میرے بھائی حضرت داؤودعلیہ السلام نے کہا میں اپنے آقا کے لیے مٹی میں اپنے چہرے کو خاک آلود کرتا ہوں اور چہرے کا یہ حق ہے کہ اپنے آقا کے لیے خاک آلودہ ہو۔(مکاشفۃ القلوب صفحہ۶۸۳۔۶۸۴)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالدبن معدان‘حضرت مکحول‘حضرت لقمان بن عامر اورحضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہوکر شعبان کی پندرہویں شب میں شب بیداری کرتے تھے اوررات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے‘‘۔(ماثبت من السنہ‘صفحہ202‘لطائف المعارف‘ صفحہ144)

علامہ ابن الحاج مالکی رحمتہ اللہ علیہ شب برأت کے متعلق رقمطرازہیں’’اورکوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والی ہے‘ ہمارے اسلاف رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کی بہت تعظیم کرتے اوراس کے آنے سے قبل اس کے لئے تیاری کرتے تھے ۔پھرجب یہ رات آتی تووہ خوش وجذبہ سے اس کااستقبال کرتے اور مستعدی کے ساتھ اس رات میں عبادت کیا کرتے تھے کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے اسلاف شعائر اللہ کابہت احترام کیاکرتے تھے(المدخل‘جلد1صفحہ392)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں اب جوشخص شعبان کی پندرہویں رات میں شب بیداری کرے تویہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب ہے‘رسول کریمﷺ کایہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شب برأت میں آپ مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لئے قبرستان تشریف لے گئے تھے۔(ماثبت من السنہ صفحہ205)

مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس مقدس رات میں خود رسول اللہ ﷺ ، تابعین اور امت کے اکابرین مسجد میں شب بیداری فرماتے اور عبادات و دعا میں مشغول رہتے۔ اس رات شب بیداری کااہتمام کرنا امت مرحومہ  کاطریقہ رہا ہے۔ 

زیارت قبور :

آقاومولیٰ ﷺ نے زیارت قبورکی ایک بڑی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے موت یادآتی ہے اورآخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔شب برأت میں زیارت قبور کاواضح مقصد یہی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کویاد رکھیں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو‘ یہی شب بیداری کااصل مقصد ہے۔

قبرستان حاضری کے آداب:

مرحومین اور عزیزوں کی مغفرت کے لیے، باوضو ہو کر اور تازہ گلاب (یا دوسرے پھول) لے کر قبرستان جائیں، قبرستان میں داخلہ کے وقت یہ دعا پڑھیں۔

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَاۤ اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُاللّٰهُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَ نَحْنُ بِالْاَثْرِ 

 ( ترمذی،   كتاب الجنائز،   باب ما يقول الرججواب      الخ، ۲/ ۳۲۹،حديث: ۱۰۵۵)

ترجمہ:  سلامتی ہو تم پر اے اہلِ قبرستان!  اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے پہلے گئے اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں ۔

یا یوں کہے:  

 اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَّاِنَّـاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ

(بہارِشریعت،  کتاب الجنائز،زیارتِ قبور،۱ /۸۴۹مختصراً)

قبرستان  جاتے ہوئے راستے اور قبرستان میں فضول باتوں میں مشغول نہ ہو۔ قبروں کے آداب اور خصوصًا قبروں کے سرہانے لوح پر لکھی آیاتِ قرآنی کا احترام کریں، قبروں پر نہ چلیں، قبروں پر آگ نہ جلائیں یعنی روشنی کے لیے موم بتی یا چراغ جلانا منع ہے،  خوشبو کے لیے اگر بتی جلائیں تو قبر سے  دور رکھیں۔جب قبرستان پہنچے تو پائنتی (قدموں) کی طرف سے جا کر اس طرح کھڑا ہو کہ قبلہ کو پیٹھ ہو اور میِّت کے چہرے کی طرف منہ۔ میِّت کے سرہانے سے نہ آئے کہ میِّت کیلئے باعثِ تکلیف ہے یعنی میِّت کو گردن پھیر کر دیکھنا پڑتا ہے کہ کون آیا ہے؟ ( ردالمحتار،   كتاب الصلاة ، باب صلاۃ الجنازۃ،   مطلب في زيارة القبور،۳ / ۱۷۹)

پھر تلاوت قرآن مجید ، فاتحہ اور ذکر و اذکار جو بھی ایصال ثواب کے لئے کرنا چاہیں ۔(فاتحہ کا طریقہ ملاحظہ کرنے لئے یہاں کلک کریں)اپنی موت کو بھی یاد رکھیں، خواتین قبرستان میں نہ جائیں۔

اس سلسلے میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاایمان افروز واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں منقول ہے کہ جب آپ شب برأت میں گھر سے باہرتشریف لائے توآپ کاچہرہ یوں دکھائی دیتا تھاجس طرح کسی کوقبر میں دفن کرنے کے بعد باہر نکالاگیا ہو۔آپ سے اس کاسبب پوچھاگیاتوآپ نے فرمایاخدا کی قسم میری مثال ایسی ہے جیسے کسی کی کشتی سمندر میں ٹوٹ چکی ہو اور وہ ڈوب رہا ہو اوربچنے کی کوئی امید نہ ہو‘پوچھاگیا آپ کی ایسی حالت کیوں ہے؟ فرمایا میرے گناہ یقینی ہیں‘ لیکن اپنی نیکیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے قبول کی جائیں گی یا پھرردکردی جائیں گی۔(غنیتہ الطالبین‘ صفحہ250)

آتش بازی و دیگر خرافات:

اللہ اکبر! مذکورہ واقعے سے درس عبرت حاصل کرنا چاہیئے کہ نیک ومتقی لوگوں کا یہ حال ہے ، جوہررات شب بیداری کرتے ہیں اورتمام دن اطاعت الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے برعکس بعض لوگ ایسے کم نصیب ہیں جواس مقدس رات میں فکر آخرت اورعبادت ودعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو ولعب میں مبتلاہوجاتی ہیں آتش بازی پٹاخے اوردیگرناجائز امورمیں مبتلاہوکر وہ اس مبارک رات کاتقدس پامال کرتے ہیں‘حالانکہ آتش بازی اورپٹاخے نہ صرف ان لوگوں اوران کے بچوں کی جان کیلئے خطرہ ہیں بلکہ اردگرد کے لوگوں کی جان کیلئے بھی خطرے کاباعث بنتے ہیں‘ایسے لوگ’’مال برباد اورگناہ لازم‘‘کامصداق ہیں۔

ہمیں چاہئے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی بچیں اوردوسروں کوبھی بچائیں اوربچوں کوسمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے اللہ تعالیٰ اورا س کے پیارے حبیبﷺ ناراض ہوتے ہیں‘ مجددبرحق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں‘آتشبازی جس طرح شادیوں اورشب برأت میں رائج ہے‘ بے شک حرام اورپورا جرم ہے کہ اس میں مال کاضیاع ہے‘ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کوشیطان کے بھائی فرمایا گیا،ارشا ہوا

وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا ﴿۲۶﴾ اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ(بنی اسرائیل:۲۶،۲۷)

’’اورفضول نہ اڑابے شک(مال)اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں‘‘(ترجمۂ کنزالایمان)

شب برأت کے نوافل:

بعد مغرب 6 نوافل:
شب برأت میں بعد نمازِمغرب خصوصی نوافل ادا کرنا معمولاتِ اولیا ئے کرام رحمہم اللہ سے ہے۔ مغرِب کی نماز مکمل کرکے 6 رکعت نفل 2-2 رکعت کر کے ادا کیجئے۔پہلی 2 رکعت نماز نفل برائے درازی عمر بالخیرپڑھیں، پھر سورۂ یٰسین پڑ ھیں۔ پھر2رکعت نفل برائے ترقی و کشادگی رزق پڑھیں، پھر سورۂ یٰسین پڑ ھیں۔پھر2 رکعت نفل برائے دفع بلیات و استغفار پڑھیں پھر سورۂ یٰسین پڑھ کر دعائے نصف شعبان المعظم پڑھیں۔انشاء اللہ ! آئندہ ایک سال تک محتاجی اور آفات قریب نہیں آئیں گی۔ (یسین شریف اور دعائے نصف شعبان المعظم کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

صلوۃ الخیر:

صلوۃ الخیرسے چار ہزار نو سو (۴۹۰۰) حاجتیں پوری ہوتی ہیں:

حضرت خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ الرضوان فرماتے ہیں کہ ’’مجھے تیس صحابہ علیہم الرضوان نے بیان کیا ہے کہ اس رات جو شخص یہ نماز خیر پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ستر مرتبہ نظر رحمت فرماتا ہے ایک نظر میں ستر حاجتیں پوری فرماتا ہے جن میں سب سے ادنیٰ حاجت گناہوں کی مغفرت ہے اس طرح کل چار ہزار نو سو حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو دورکعت کر کے صلوٰۃ خیر مستحب کی نیت باندھیں، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دس بار سورۃ اخلاص پڑھیں۔ پچاس نمازوں کی سو رکعتوں میں ایک ہزار مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھیں گے۔

صلوۃ التسبیح

حضور اکرم نور مجسمﷺ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: اے چچا! کیا میں تم کو عطا نہ کروں، کیا میں تم کو بخشش نہ کروں، کیا میں تم کو نہ دوں، کیا میں تمہارے ساتھ احسان نہ کروں، دس فوائد ہیں کہ جب تم یہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اگلا، پچھلا، پرانا، نیا، جو بھولے سے کیا جو قصدًا کیا، چھوٹا ہو، بڑا ہو، پوشیدہ ہو یا ظاہر ہو۔ اس کے بعد صلوۃ التسبیح کی ترکیب تعلیم فرمائی، پھر فرمایا کہ اگر تم سے ہو سکے تو ہر روز ایک بار پڑھا کرو یا پھر جمعہ کے دن ایک بار یا ہر ماہ میں ایک بار یا سال میں ایک بار یہ بھی نہ ہوسکے تو زندگی میں ایک بار ضرور پڑھو۔

طریقہ یہ ہے کہ نیت کے بعد تکبیر تحریمہ کہہ کر ثنا پڑھیں، پھر تسبیح

’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلہِ وِلَا اِلٰہَ اِلَّااللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ ‘‘

پندرہ بار پھر تعوذ، تسمیہ،سورۃ فاتحہ اور کوئی بھی سورۃ پڑھ کر رکوع میں جانے سے پہلے دس بار یہی تسبیح پڑھیں پھر رکوع میں دس بار، رکوع سے سر اٹھا کر قومہ میں تحمید کے بعد دس بار پھر سجدہ میں دس بار دونوں سجدوں کے درمیان جلسے میں دس بار، دوسرے سجدہ میں دس بار اس طرح چاروں رکعت میں پڑھیں ہر رکعت میں پچھتر(۷۵) بار چاروں رکعتوں میں تین سو (۳۰۰) بار تسبیح پڑھی جائے گی۔ یہ واضح رہے کہ دوسری، تیسری اور چوتھی رکعتوں کے شروع میں فاتحہ سے پہلے پندرہ بار اور رکوع سے پہلے دس بار یعنی قیام میں پچیس (۲۵) بار اور رکوع و سجود میں’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم‘‘ اور ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ‘‘ تین مرتبہ پڑھ کر پھر تسبیح دس دس بار پڑھیں گے۔

نوٹ: جن کے ذمہ فرض نمازیں باقی ہیں انہیں نوافل سے پہلے فرائض ادا کرنا ضروری ہیں۔

متعلقہ کتب

متفرقات

Menu