سیدۃ النساء العالمین جگر گوشۂ رسول سیدتنا فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا
رسولِ کائنات ﷺ کی سب سے زیادہ چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ ہیں آپ کے سن ولادت کے بارے میں علامہ ابن حجر دوقول ذکر فرماتے ہیں پہلا یہ کہ ولدت فاطمۃ والکعبۃ تبنی والنبی صلی اللہ علیہ وسلم ابن خمس وثلاثین سنۃ یعنی سیّدہ کی ولادت اورتعمیر کعبہ کے وقت حضور ﷺ کی عمر شریف پینتیس سال تھی دوسرایہ کہ انھاولدت سنۃ احدی واربعین من مولد النبی ﷺ کہ سیّدہ کی ولادت اکتالیس ویں نبوی میں ہوئی آپ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کم وبیش پانچ سال بڑی ہیں۔ (الاصابہ ج۸ص۲۶۳ کتاب النساء)
آپ بھی سیّدہ خدیجہ کے شکم مبارک سے ہیں چنانچہ اسد الغابہ میں ہے امھا خدیجۃ بنت خویلد وکانت ہی وام کلثوم اصغربنات رسول اللہ صلی اللہ وسلم یعنی آپ کی والدہ سیّدہ خدیجہ بنت خویلد ہیں سیّدہ فاطمۃالزھرا اورسیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہماحضور کی صاحبزادیوں میں سے سب سے چھوٹی تھیں۔(اسدالغابہ ج۷ص۲۳۸)
خیال رہے ان دونوں صاحبزادیوں میں کون چھوٹی ہے اس میں بھی اختلاف ہے وقداختلف فی ایتھن اصغر(ایضا) البتہ الاصابہ میں ہے والذی یسکن الیقین ان اکبرھن زینب رضی اللہ عنہا ثم رقیۃ رضی اللہ عنہا ثم ام کلثوم ثم فاطمۃ یعنی وہ قول جس میںیقین بالسکون حاصل ہوتاہے وہ یہ ہے کہ سب میں بڑی سیّدہ زینب ہیں پھررقیہ پھرا م کلثوم پھر خاتون جنت رضی اللہ عنھن۔
شیخ محقّق علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ آپ کے نام فاطمہ کاسبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیّدہ کواورآپ سے محبت رکھنے والے تمام مسلمانوں کودوزخ کی آگ سے محفوظ رکھاہے اورآپ کانام بتول اس لیے ہے کہ آپ اپنے زمانہ کی تمام عورتوں سے بہ لحاظ فضیلت دین اورحسن وجمال میں منفرد تھیں اورآپ ماسوائے اللہ سے بالکل ہی بے نیاز تھیں آپ کانام زہرا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ زہریت و بہجت اورحسن وجمال میں کمال رکھتی تھیں آپ کے القاب زکیہ اورراضیہ بھی ہیں۔(مدارج شریف)
روت عن ابیھا روی عنھا ابناھا وابوھما وعائشۃ وامّ سلمہ وسلمی ام رافع وانس۔آپ نے حضور ﷺ سے احادیث روایت فرمائیں اورآپ سے آپ کے دونوں صاحبزادوں اورا ن کے والد گرامی اور حضرت عائشہ ،حضرت اُمّ سلمہ اُمّ رافع وحضرت انس نے روایت حدیث فرمائی۔(الاصابہ)
حضور کی اولاد آپ ہی سے چلی چنانچہ اسدالغابہ میں ہے وانقطع نسل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الامنھا فان الذکور من اولادہ ماتوا صغارا واماالبنات فان رقیۃ رضی اللہ عنہا ولدت عبداللہ بن عثمان فتوفی صغیرا واما ام کلثوم فلم تلد واما زینب رضی اللہ عنہا فولدت علیا ومات صبیّاوولدت امامہ بنت ابی العاص فتزوجھا علی ثم بعدہ المغیرہ بن نوفل وقال الزبیرا نقرض عقب زینب رضی اللہ عنہا ۔
یعنی سیّد عالم ﷺ کی اولاد سیّدہ فاطمہ سے منقطع نہ ہوئی یعنی آپ ہی سے چلی کیونکہ حضور ﷺ کی اولاد نرینہ بچپن میں وصال فرماگئی رہی صاحبزادیاں توحضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں عبداللہ بن عثمان کی ولادت ہوئی اور وہ صغرسنی میں وفات فرماگئے اورحضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے ہاں اولاد نہ ہوئی جب کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شکم مبارک سے علی نے تولد فرماکر بچپن میں ہی رحلت فرمالی اورحضرت امامہ کی پیدائش ہوئی ان سے حضرت علی نے نکاح فرمایا آپ کے بعد مغیرہ بن نوفل نے زبیرنے کہا کہ حضرت زینب کی اولاد ختم ہو گئی ۔
سیّدہ خاتونِ جنت کا حضرت علی سے عقدِ نکاح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم غزوۂ بدر سے لوٹے تو آپ نے سیّدہ کانکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمادیا تھا یہ رمضان کامقدس مہینہ اورسن دوہجری تھا بعض علماء نے کہا ہے کہ غزوۂ احد کے بعد ہوا تھا دیگر ایک قول کے مطابق نکاح رجب میں ہوا جب کہ ماہِ صفر کی بھی روایت ہے آپ کانکاح اللہ تعالیٰ کے حکم اوروحی کے مطابق کیاگیا اس وقت آپ کی عمر شریف پندرہ سال ساڑھے پانچ ماہ یاسولہ سال یا پھراٹھارہ برس تھی جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر شریف اکیس سال تھی۔(مدارج شریف)
خیال رہے حضرت خاتون جنت کے نکاح کے لئے پہلے حضرت ابوبکر صدّیق وعمر فاروق رضی اللہ عنہما نے بھی حضورسیّد عالم ﷺ کوپیغام دیا تھا لیکن حضور ﷺ نے منع فرمادیا ۔چنانچہ اسدا لغابہ میں ہے عن علی قال خطب ابوبکر وعمر یعنی فاطمۃ الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فابی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیھما یعنی حضرت علی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ شیخین کریمین نے حضرت فاطمہ کے نکاح کاپیغام حضور ﷺ کی بارگاہ میں بھیجا لیکن آپ نے دونوں کو انکار فرمادیا ۔(اسدالغابہ)
اس کے بعد حضرت عمر یا امّ ایمن یاپھر اہل وخواص نے حضرت علی سے فرمایا ( ممکن ہے کہ سب نے کہاہو)کہ حضور ﷺ کی خدمت میں جائو اور فاطمہ کے لئے نکاح کا پیغام دو حضرت علی شیرِ خدانے فرمایا کہ مجھے شرم آتی ہے۔ نیز انہوں نے ابوبکر وعمر کوانکار فرمادیا تومجھے کیونکر ہاں کریں گے؟ ان سے کہاگیا کہ تم حضور ﷺ کے نزدیک ترین ہو ،ا ن کے چچا کے بیٹے ہو۔ پس آپ حضورکی بارگاہ میں آئے سلام عرض کیا آپ ﷺ نے جواب دے کر پوچھا کس غرض سے آئے ہو عرض کی حضور ﷺ فاطمہ کے لئے درخواست پیش کرنے آیاہوں ،پس حضور ﷺ نے مرحبافرمایا ،اس کے بعد حضور ﷺ پروحی الٰہی آئی اورآپ نے حضرت انس کو فرمایا اے انس پروردگارِ عرش کی طرف سے جبرئیل آئے او ربتایا کہ اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ فاطمہ کانکاح علی کیساتھ کردو ۔اے انس! جائو اورابوبکر ،عمر،عثمان وطلحہ اورزبیر وانصار کی جماعت کو بلا لائو پس جب یہ لوگ آئے توحضور نے خطبہ ارشاد فرمایا اورسیّدہ کاحضرت علی سے نکاح فرمادیا چارسومثقال چاندی حق مہر مقرر ہوا ۔(مدارج شریف)
جب سیّدہ خاتون جنت کوخبر پہنچی تو آپ رونے لگیں توحضور نے فرمایا مالک تبکین یافاطمۃ فواللہ لقد انکحتک اکثرھم علما و افضلھم صلحا واولھم مسلما اے صاحبزادی! آپ کوکیا ہوا کہ روتی ہو قسم بخدا میں نے سب سے زیادہ جاننے والے اورحلم والے اورسب سے پہلے اسلام قبول فرمانے والے سے آپ کانکاح کیاہے۔ (اسدالغابہ)
حضرت علی کیساتھ سیّدہ کانکاح کرنے کے بعد حضور ﷺ گھر میں تشریف فرما ہوئے اورسیّدہ سے فرمایا کہ میرے لئے پانی لاؤ آپ لکڑی کاپیالہ بھر کر پانی لائیں حضور ﷺ نے اس میں اپنالعاب دہن ڈالا اورسیّدہ کو فرمایا کہ آگے آؤپھرآپ نے وہ پانی سیّدہ کے سینہ مبارکہ اور سرمبارک پرچھڑک دیااور دعا کی اے اللہ میں اسے تیری پناہ میں دیتاہوں اوراس کی اولاد کوبھی مردود شیطان سے اسی طرح حضرت علی کے سرمبارک اوردھن مبارک پر بھی پانی ڈالا اوردعا کی اللھم انی اعیذہ بک وذریتہ من الشیطان ۔(مدارج شریف)
فضائلِ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا:
۱…نصاری نجران کا ایک وفد سیّد عالم ﷺ کی خدمت میں آیااوروہ لوگ کہنے لگے آپ گمان کرتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کے بندے ہیں فرمایا ہاں اس کے بندے اوراس کے رسول اوراس کے کلمے جوکہ کنواری بتول عذرا کی طرف القاء کئے گئے نصاریٰ یہ سن کر بہت غصہ میں آئے اور کہنے لگے یامحمد(ﷺ )کیاتم نے کبھی بے باپ کاانسان دیکھا ہے اس سے ان کامطلب یہ تھا کہ وہ خد اکے بیٹے ہیں(معاذ اللّٰہ) اس پریہ آیت (ان مثل عیسیٰ عنداللہ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون کہ عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہوجا وہ فوراً ہوجاتاہے) نازل ہوئی اوریہ بتایا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف بغیر باپ ہی کے ہوئے اورحضرت آدم علیہ السلام توماں اور باپ دونوں کے بغیر مٹی سے پیدا کئے گئے توجب انہیں اللہ کامخلوق اوربندہ مانتے ہو تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کواللہ کامخلوق وبندہ ماننے میں کیاتعجب ہے اورفرمایا گیا کہ الحق من ربک فلاتکونن من الممترین اے سننے والے یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے توشک والوں میں نہ ہونا۔
جب حضور ﷺ نے نجران کے نصاری کو یہ آیت پڑھ کرسنائی تو وہ لاجواب ہوگئے اورجھگڑنے لگے تواتمام حجت کے لئے آیات مباہلہ پیش کی گئی چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا فمن حاجک فیہ من بعد ماجاء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابناء نا وابناء کم ونساء نا ونساء کم وانفسنا وانفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اللّٰہ علی الکذبین یعنی پھراے محبوب جوتم سے عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا ان سے فرمادو آؤہم بلائیں اپنے بیٹے اورتمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اورتمہاری عورتیں اوراپنی جانیں اورتمہاری جانیں پھرمباہلہ کریں توجھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔جب رسول کریم ﷺ نے نصاری نجران کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اورمباہلہ کی دعوت دی تو کہنے لگے کہ ہم غور اورمشورہ کرلیں کل آپ کوجواب دیں گے جب وہ جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سب سے بڑے عالم اور صاحب رائے شخص عاقب سے کہا کہ اے عبدالمسیح آپ کی کیارائے ہے اس نے کہا کہ اے جماعت نصاریٰ تم جان چکے ہو کہ محمد نبی مرسل توضرور ہیں اگر تم نے ان سے مباہلہ کیا تو سب ہلاک ہوجائوگے اب اگر نصرانیت پرقائم رہنا چاہتے ہو تو انہیں چھوڑ واورگھر لوٹ چلو ۔
حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی توحضور نے حضرت علی اورفاطمہ اورحسن وحسین کوبلایا اورا للہ کی بارگاہ میں عرض گزارہوئے اللھم ھؤلاء اھل بیتی اے اللہ میرے گھروالے یہ ہیں۔
نصاری آپس میں مشورہ کرنے کے بعد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے توانہوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ کی گود میں توامام حسین ہیں او ردست مبارک میں حسن کاہاتھ اورفاطمہ وعلی حضورکے پیچھے ہیں رضی اللہ عنہم اورحضور ان سب سے فرمارہے ہیں کہ جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا۔ نجران کے سب سے بڑے نصرانی عالم پادری نے جب ان حضرات کودیکھا تو کہنے لگے اے جماعت نصاری میں ایسے چہرے دیکھ رہاہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ سے پہاڑ کوہٹادینے کی دعا کریں تو اللہ تعالیٰ پہاڑ کوجگہ سے ہٹادے ان سے مباہلہ نہ کرنا ہلاک ہوجاؤگے اورقیامت تک روئے زمین پرکوئی نصرانی باقی نہ رہے گا یہ سن کر نصاری نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ مباہلہ کی تو ہماری رائے نہیں ہے۔
آخرکار انہوں نے جزیہ منظورکیامگر مباہلہ کے لئے تیار نہ ہوئے سیّد عالم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے نجران والوں پر عذاب قریب آہی چکا تھا اگروہ مباہلہ کرتے تو بندروں اورسوروں کی صورت میں مسخ کردیئے جاتے اور جنگل سے آگ بھڑک اٹھتی اور نجران اوروہاں کے رہنے والے پرند تک نیست ونابود ہوجاتے اورایک سال کے عرصہ میں تمام نصاری ہلاک ہوجاتے۔
خیال رہے اس مقام پر یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا کہ اگرحضور کی چار بیٹیاں تھیں تو دیگر صاحبزادیاں مباہلے میں کیوں نہ شریک ہوئیں کیونکہ جب مباہلہ ہوا اس وقت سیّدہ زینب ورقیہ اورام کلثوم کا انتقال ہوچکا تھا اس لئے کہ واقعہ مباہلہ دس ہجری میں ہوا جب کہ صاحبزادیوں کا انتقال بالترتیب دواورآٹھ ونو ہجری کوہوچکاتھا نیز ایسے موقع پر اپنے بچوں کی قسم کھائی جاتی ہے ناکہ بیویوں ودوستوں کی مزیدبرآں یہ کہ حضرت علی اہل بیت سکونت اہل بیت نسب ہیں اورفاطمہ زھراوحسنین کریمین اہل بیت ولادت میں داخل ہیں اس لئے حضور ﷺ ان کواپنے ہمراہ لے گئے اورازواجِ مطہّرات رضی اللہ عنھنّ واصحاب کوساتھ نہ لے کرگئے اورفرقہ شیعہ پر اتمام حجت یہ ہے کہ ان کی معتبر کتاب اصول کافی سے حضور ﷺ کی چارصاحبزادیوں کاہوناثابت ہے۔(کنزالایمان وخزائن العرفان ،تفسیر نعیمی ،تفسیرحسنات ،مسلم ،مشکوٰۃ ،اشعت اللمعات ، مراۃ وغیرہ)
۲…حضرت مسعود بن منحرمہ روایت فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا فاطمۃ بضعۃ منی فمن اغضبھا اغضبنی وفی روایۃ یریبنی ماارابھا ویوذینی مااذابھا کہ فاطمہ میراٹکڑاہے جس نے انہیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا (بخاری ،ج۱،ص۵۳۲، مسلم ج۲،ص۲۹۰، مشکوۃ،ص۵۶۸)
اورایک روایت میں ہے کہ جوچیز انہیں پریشان کرے مجھے کرتی ہے اورجوچیز انہیں تکلیف دے وہ مجھے ستاتی ہے (مشکوٰۃ، مراۃ)
اس حدیث سے امام سبکی نے استدلال فرمایا ہے جوشخص سیّدہ فاطمہ کوگالی دے وہ کافر ہے(اشعۃ اللمعات)
۳…حضرت فاطمۃ الزھرا حضور ﷺ کی رازدان ہم شکل تھیں حتیٰ کہ چال ڈھال وضع وقطع میں حضور ﷺ سے مشابہ تھیں جب سیّدہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں آتیں تو حضور ﷺ آپ کے استقبال میں خوشی سے کھڑے ہوجاتے پیشانی مبارک پر بوسہ دیتے اوراپنی مسند شریف پربیٹھا لیتے چنانچہ حضرت اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کناازواج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عندہ فاقبلت فاطمۃ ماتخفی مشیتھا من مشیۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما راھاقال مرحبا بابنتی ثم اجلسھا ثم سارھا فبکیت بکاء شدیدا فلمارای حزنھا سارھا الثانیۃ فاذاھی تضحک فلما قام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سألتھاعماسارک قالت ماکنت لافشی علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سرہ فلماتوفی قلت عزمت علیک بمالی علیک من الحق لما اخبرتنی قالت اماالآن فنعم اماحین سارنی فی الامر الاول فانہ اخبرنی ان جبرئیل کان یعارضنی القرآن کل سنۃ مرّۃ وانہ عارضنی بہ العام مرتین ولا اری الاجل الا قد اقترب فاتقی اللّٰہ واصبری فانی نعم السلف انالک فبکیت فلما رأی جزعی سارنی الثانیۃ قال یا فاطمۃ الاترضین ان تکونی سیدۃ نساء اھل الجنۃ اونساء المومنین وفی روایۃ فسارنی فاخبرنی انہ یقبض فی وجعہ فبکیت ثم سارّنی فاخبرنی انی اول اھل بیتہ اتبعہ فضحکت (متفق علیہ،مشکوۃ ص۵۶۸)
کہ نبی پاک ﷺ کی بیویاں آپ کے پاس تھیں جناب فاطمہ آئیںآپ کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال سے بالکل مختلف نہ تھی توجب انہیں حضور ﷺ نے دیکھا توفرمایا خوش آمدید اے میری بچی پھر انہیں بٹھالیا پھرا ن سے سرگوشی کی آپ بہت سخت روئیں تو جب ان کارنج ملاحظہ فرمایا توان سے دوبارہ سرگوشی فرمائی تووہ ہنس پڑیں پھرجب حضور ﷺ تشریف لے گئے تومیں نے ان سے سرگوشی کے متعلق پوچھا آپ بولیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کاراز فاش نہیں کرسکتی پھر جب حضورکی وفات ہوگئی تومیں نے کہاکہ میں تم کو اس کی وجہ سے جومیرا تم پر حق ہے قسم دیتی ہوں کہ تم مجھے بتادو آپ بولیں لیکن اب توہاں ضرور جس وقت حضور ﷺ نے پہلی بار مجھ سے سرگوشی کی تو آپ نے مجھے بتایا کہ حضرت جبرئیل ہرسال مجھ پرقرآن مجید ایک بار پیش کرتے تھے اورانہوں نے اس سال مجھ پر دوبار پیش کیا میں نہیں خیال کرتا مگر یہ کہ میری وفات قریب ہے تم اللہ سے ڈرتی رہنا اورصبر کرنا میں تمہارابہترین پیش رو ہوں تو میں رونے لگی توجب حضور ﷺ نے میر ی گھبراہٹ دیکھی تو مجھ سے دوبار ہ سرگوشی کی فرمایا اے فاطمہ کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم جنتی لوگوں کی بیویوں یامومنوں کی بیویوں کی سردار ہو اورایک روایت میں ہے کہ مجھ سے حضور ﷺ نے سرگوشی فرمائی کہ اس بیماری میں وفا ت ہوگی تومیں روئی پھر مجھ سے دوبارہ سرگوشی کی مجھے خبر دی کہ میں ان کے گھروالوں میں پہلی ہوں گی جوان کے پیچھے پہنچوں گی تو میں ہنس پڑیں۔
خیال رہے فضیلت فاطمہ زھرا کے متعلق چند قول ہیں ایک یہ کہ حضرت فاطمہ زھرا دنیا بھر کی تمام عورتوں سے افضل ہیں حتیٰ کہ بی بی مریم جناب عائشہ اورجناب خدیجۃ الکبریٰ سے بھی دوسرے یہ کہ حضرت خدیجہ وعائشہ جناب فاطمۃ زہرا سے افضل ہیں تیسرے یہ کہ تینوں حضرات یعنی خدیجۃ الکبریٰ عائشہ صدّیقہ وفاطمۃ الزھرا ہم رتبہ ہیں ترجیح دوسرے ،قول کوہے کہ جناب عائشہ وخدیجہ حضرت فاطمہ زھرا سے افضل ہیں ( مراۃ) والتفصیل مرّفارجع الیہ۔
۴…حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ان فاطمۃ احصنت فرجھا فحرم اللہ ذریتھا علی النار کہ بے شک فاطمہ نے اپنی عزت کی حفاظت فرمائی پس اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیّدہ خاتون جنت کی ذریت کو آگ پر حرام فرمادیا (الصواعق المحرقہ ص۲۳۴)
۵…اسی الصواعق المحرقہ میں ہے کہ وجاء بسند رواتہ ثقات انہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لفاطمۃ ان اللّٰہ غیر معذبک ولاو لادک یعنی ایسی سند کیساتھ جس کے روات ثقہ ہیں اللہ کے رسول نے فاطمہ الزھرا سے فرمایا کہ (اے فاطمہ) اللہ آپ کو اورآپ کی اولاد کو عذاب نہ دے گا ۔
۶…حضرت جمیع بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کیساتھ حضرت اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض گزارہوا ا ی الناس کان احب الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالت فاطمۃ فقیل من الرجال قالت زوجھا کہ لوگوں میں حضور ﷺ کوسب سے زیادہ کون محبوب تھا سیّدہ نے فرمایا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اورپوچھا گیا کہ مردوں میں کون محبو ب تھا فرمایاان کے خاوند (حضرت علی) رضی اللہ عنہم اجمعین (ترمذی باب فضل فاطمۃ الجلدالثانی ص۲۲۷، اسدالغابہ الجزء السابع الرقم ۲۴۲)
۷…حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا اینااحب الیک انا اوفاطمۃ قال فاطمۃ احب الی منک وانت اعزعلی منھا( الجزء السابع من اسدالغابہ )اے اللہ کے رسول آپ کومجھ اورجناب فاطمہ میں سے کون زیادہ محبوب ہے میں یا خاتون جنت اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا فاطمہ آپ سے زیادہ مجھے محبوب ہیں اورآپ ان سے زیادہ عزیز ہو۔
۸… حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ انماسمیت فاطمۃ لان اللّٰہ تعالیٰ فطمھا وذریتھا عن الناریوم القیمۃ رواہ ابن عساکر عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ فاطمہ زھرا کانام فاطمہ اس لئے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اوراس کے نسل کوقیامت میں آگ سے محفوظ فرمادیا۔(اراۃ الادب لفاضل النسب لمحدث بریلوی امام احمدرضا رضی اللّٰہ عنہ)
۹…حضرت ابوجحیفہ حضرت علی سے روایت فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا میں نے رسولِ کائنات کو فرماتے سنا اذاکان یوم القیمۃ نادی مناد من وراء الحجاب یااھل الجمع عضوا ابصارکم عن فاطمۃ بنت محمد حتی تمر (الجزء السامع من اسدالغابہ)اورجب قیامت کادن ہوگا توحجاب کے پیچھے سے ایک منادی نداکرے گا اے اہلِ محشرا پنی نگاہیں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے جھکا لو حتی کہ سیّدہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا گزریں۔
شعر :
سیّدہ زاہدہ طیبہ طاہرہ
جان احمد کی راحت پر لاکھوں سلام
(اعلی حضرت رضی اللہ عنہ)
سیّدہ کاوصال:
سیّدہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا کاوصال حضور ﷺ ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد ہوا ۔ھذاصح ماقیل(اسدالغابہ) ومارویت ضاحکۃ بعدوفاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی لحقت باللہ عزوجل( ایضا) حضور ﷺ کی وفات کے بعد سیّدہ فاطمہ کوہنستے ہوئے نہ دیکھا گیا یہاں تک کہ آپ مولیٰ حقیقی سے جاملیں۔
سیّدہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا نے حضرت اسماء بنت عمیس کوقبل از وصال فرمایا یااسماء انی قداستقبحت مایصنع بالنساء یطرح علی المرأۃ الثوب فیصفھا اے اسماء میں یہ بات برا جانتی ہوں جو کہ عورتوں کیساتھ کیاجاتاہے کہ عورت پرکپڑا ڈال دیاجاتا ہے اور اس کے جسم کی ہیئت ظاہر ہوتی ہے قالت اسماء یاا بنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الااریک شیئا رایتہ بارض الحبشۃ فدعت بجرائد رطبۃ فحسنتھا ثم طرحت علیھا ثوبا حضرت اسماء فرماتی ہیں کہ اے صاحبزادی رسول اللہ ﷺ میں آپ کو نہ دکھاؤں جومیں نے حبشہ میں دیکھا ہے پھر آپ نے ترشاخیں منگوائیں اوران کو سیدھا کیا اور اوپر سے کپڑاڈال دیا فقالت فاطمۃ مااحسن ھذاواجملہ فاذامت فاغسلینی انت وعلی ولاتدخلنی علی احدا اورسیّدہ نے فرمایا کہ یہ کتنا اچھا طریقہ ہے پس جب میرا وصال ہو تو مجھ کو آپ اورعلی غسل دیں اورمجھ پر کسی او رکوداخل نہ ہونے دیں چونکہ آپ نے یہ وصیت فرمائی تھی اس لیے جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں تو حضرت اسماء نے انہیں منع کردیا اُمّ المؤمنین نے حضرت صدّیق اکبر کو شکایت کی اور فرمایا کہ یہ خاتون ہمارے اور حضور ﷺ کی صاحبزادی کے مابین حائل ہوگئی پھرحضرت صدّیق اکبر دروازے پرجاکر فرماتے ہیں کہ اے اسماء آپ کو کس بات نے برانگیختہ کیا کہ آپ نے ازواجِ رسول کوبنت ِرسول پرداخل ہونے سے منع کردیا؟ حضرتِ اسما ء جواباً عرض کرتی ہیں سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کامجھے حکم دیا تھا کہ ان پر کوئی بھی نہ آئے توسیدناصدّیق اکبر نے فرمایا فاصنعی ماامرتک کہ جیسا سیّدہ نے آپ کوحکم دیا ویسے ہی کرو لہٰذا آپ کوحضرت علی وحضرت اسماء بنت عمیس نے غسل دیا آپ کی نماز جنازہ حضرت علی نے پڑھائی اوریہ بھی کہاگیاہے کہ حضرت عباس نے پڑھائی چونکہ سیّدہ نے یہ بھی وصیت فرمائی تھی کہ آپ کی تدفین رات میں کی جائے لہٰذا حکم کے مطابق کیاگیا اورآپ کی قبر میں حضرت علی اورحضرت عباس وفضل بن عباس اترے (اسدالغابہ)
آپ نے تیس یاپھرپینتیس سال عمرپائی(ایضا) آپ کے چھ بچے ہوئے ۔حسن ،حسین،محسن ، زینب،ا م کلثوم،رقیہ
مراۃ میں ہے کہ آپ نے اٹھائیس سال عمر پائی ۔نیز فرمایاصحیح یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ نے آپ کاجنازہ پڑھایا(مراۃ جلد۸)
نیز قیامت میں سیّدہ سترہزار حوران بہشتی کے ہمراہ بجلی کی طرح گزریں گی (ایضا، صواعق ومرقاۃ )
(اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رضی اللہ عنہ)