حضرت علامہ مفتی محمد حبیب رضا قادری رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ولادت:
نور دیدۂ مفتی اعظم عالم باعمل مولانا صوفی محمد حبیب رضا قادری رضوی بن مولانا حسنین رضا بن اُستاد زمن مولانا حسن رضا بریلوی (برادر خورد امام احمد رضا فاضل بریلوی) ذی الحجہ اگست ۱۹۳۳ء کو محلہ کانکر ٹولہ پرانا شہر بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔
حلیہ اور ملبوسات:
پکارنگ، گھنی داڑھی قدرے سفید، درمیانہ، آنکھوں پر کبھی کبھی عینک، مسکراتا چہرا پر مروت وشرافت کا غازہ نمایاں، کلی دار کرتا، بڑی مہری کا علی گڑھ کاٹ پاجامہ، دو پلی ٹوپی، کبھی کبھی شیروانی بھی زیب تن فرماتے ہیں۔ آپ کی شخصیت میں مکمل طور پر بزرگانہ کشش پائی جاتی ہے۔
خاندانی حالات
مولانا صوفی حبیب رضا کے والد ماجد حضرت مولانا حسین رضا بن حسن رضا بریلوی ، امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہٗ کے حقیقی بھتیجہ اور شاگرد وخلیفہ تھے، اور کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں بعض زیور طبع آراستہ ہو چکی ہیں۔
حضور مفتی اعظم اور مولانا حسنین رضا علیہ الرحمہ ہمسن تھے، دونوں کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ ہوئی اور دونوں میں برادرانہ دوستانہ تعلقات تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے نہایت محبت کے ساتھ ملتے۔ ایسی محبت کہ جس کی نظیر اس زمانہ میں حقیقی بھائیوں میں نہیں ملتی۔ ہم عمر ہونے کے باوجود دونوں ایک دوسرے کا بہت احترام کرتےجس کو دیکھنے والے حیرت کرتے تھے۔
مولانا حبیب رضا بریلوی کے نانا جناب عبدالغنی خاں سب انسکپٹر پولیس بدایوں تھے۔ جو محکمہ پولیس کی ملازمت کے باوجود پابند شرع تھے۔ احتیاط کا یہ عالم تھا کہ جس کسی کے یہاں تفتیش کے لیے جاتے اُس کے یہاں کا پانی بھی پینا گوارہ نہ فرماتے۔
تعلیم وتربیت:
حضرت مولانا حبیب رضا نے ابتدائی تعلیم گھر پر والدہ ماجدہ اور والد ماجدہ اور والد بزرگوار سے حاصل کی فارسی تعلیم کے لیے دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں داخلہ لیا اور عربی فارسی کی اعلیٰ کتابیں پڑھیں۔ سلوک اور تصوف میں والد ماجد سے اکتساب فیض کیا۔ وقتاً وقتاً مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری کی خدمت میں حاضر ہوکر فیض ظاہری وباطنی سے مالا مال ہوئے۔ حضور مفتی اعطم کے وصال تک انہیں کی خدمت میں رہ کر نوری علم نوری زہد، نوری تقویٰ سے سر شار ہوتے رہے دارالعلوم منظر اسلام سے فراغت ہوئی۔
اساتذہ کرام:
۱۔ حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی
۲۔ حکیم العلماء مولانا حسنین رضا خاں رضوی بریلوی
۳۔ صدر العلماء مولانا غلام جیلانی رضوی اعظمی
۴۔ سید الاتقیاء مولانا تحسین رضا قادری بریلوی
۵۔ حافظ انعام اللہ رضوی سابق مدرس شعبۂ فارسی منظر اسلام
۶۔ حضرت مولانا سید احمد علی رام پوری
۷۔ حضرت مولانا غلام یٰسین پورنوی
خدمات دینیہ اور فتویٰ نویسی:
مولانا صوفی حبیب رضا قادری نہایت ادگی پسند، خوش اخلاق، کم گو، اور فقیہہ ہیں۔ باضابطہ طور پر کسی مدسہ میں درس و تدریس کا موقع نہیں ملا۔ بعد فراغت آپ حضور اعظم قدس سرہٗ کے دولت کدہ پر رہتے اور آئے ہوئے ملک اور بیرون ملک کے فتاوے اور خطوط کے جواب عنایت فرماتے۔نیز حضور مفتی اعظم کے اکثر فتاویٰ کی نقل بھی آپ کے ذمہ تھی۔ اس نقل افتاء نے مولانا صوفی حبیب رضا کو ایک ماہر جزئیات فقہ اور متبحر عالم دین بنادیا۔ حضور مفتی اعظم کی صحبت کیمیا اثر نے وہ گل کھلائے جو کسی شیخ کامل کی بارگاہ میں برس ہا برس رہنے سے بھی نہیں مل سکتا تھا مولانا حبیب رضا قادری نے ۱۹۷۸ء میں فتویٰ نویسی کا آغاز کیا اور اصلاح حضور مفتی اعظم سے لیتے تھے۔
مفتی اعظم قدس سرہٗ کے وصال کے بعد جانشین مفتی اعظم علامہ مفتی محمد اختر رضا ازہری القادری دامت برکاتہم القدسیہ نے مرکزی دارلافتاء کی بنیاد رکھی، اس میں خود بھی جانشین مفتی اعظم تحریر فرماتے، اور مولانا حبیب رضا بھی فتویٰ نویسی کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ ادارہ سنی دنیا کے اہتمام وانتظام کے فرائض انجام دے رہیں ہیں آپکی صلاحیتوں نے اس ادارہ میں چار چاند لگادیئے۔ مولانا کی سادگی نے گم نامی کی دنیا میں جا پہنچایا۔
حضور مفتی اعظم کی محبت:
حضرت مولانا حبیب رضا بریلوی کے گھر سے مفتی اعظم کو جو تعلق تھا۔ اس کو دیکھنے والے آج بھی بکثرت موجود ہیں۔ پُرانا شہر بریلی مسلمانوں کی ایک بہت بڑی بستی ہے۔ جو کئی محلوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ مفتی اعظم قدس سرہٗ اس پوری بستی میں کہیں بھی تشریف لاتے تو مولانا حبیب رضا کے گھر ضرور تشریف لاتے، آپ کی شادی حضور مفتی اعظم کی نواسی سے ہوئی اور یہ بھی خوش نسیبی کہ حضرت کےدولت کدہ سے ہوئی۔ وہ بھی اس محبت کا بین ثبوت ہے۔
نیز خطوط جو حضور مفتی اعظم نے مولانا حبیب رضا کے نام مختلف سفروں میں لکھے ان سے بھی آپ سے محبت وشفقت کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک خط میں حضور مفتی اعظم تحریر فرماتےہیں:
بر خوردارنور الایصار حبیب میاں سلمہٗ الرحمٰن
وعلیکم والسلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
طالب خیر بحمدہٖ تعالیٰ مع والعافیہ ہے۔ مولیٰ تعالیٰ وہاں بھی تم سب کو بخیر و عافیت رکھے، تمہارے والدین کا سایہ رحمت تمہارے سروں پر بامن و عافیت رکھے، تمہاری والدہ کو صحت وطاقت و قوت عطا فرمائے۔ آمین
فقیر مصطفیٰ رضا قادری غفرلہٗ
دوسرے خط کے سرے میں یوں رقمطراز ہیں:
بر خوردار راحت جان حبیب میاں سلمہٗ الرحمٰن
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
تمہارا خط ملا خیریت معلوم ہوکر مسرت واطمینان ہوا۔ مولیٰ تعالیٰ سب کو مع الخیر رکھے میں بھی بفضل تعالیٰ بخیر ہوں۔
فقیر مصطفیٰ رضا قادری غفرلہٗ
حضرت مولانا حبیب رضا ہزاروں میں وہ خوش نصیب شخص ہیں کہ مفتی اعظم نے آپ کو اپنا بیٹا سمجھا اور فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بیٹا عطا کیا تھا مگر وہ حالت طفلی ہی میں چلا گیا اگر خدا کسی شخص کو بیٹا دے تو حبیب میاں جیسا۔ مفتی اعظم کے یہ کلمات آپ سے محبت کا بیّن ثبوت ہیں۔
بیعت وخلافت:
مولانا صوفی حبیب رضا نے ۲۵؍صفر المظفر ۱۳۶۵ھ کو عرس رضوی بریلی میں حضور مفتی اعظم سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔ اور ۱۵؍صفر ۱۳۹۶ھ کو مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے اجازت وخلافت عطا فرمائی ۔