برکلامِ نوریؔ بریلوی علیہ الرحمہ
’’ فقط ہو یار مرا جلوہ بار آنکھوں میں‘‘
تضمین نگار: محمد مشاہدرضا عبیدؔالقادری
جچے نہ دنیا نہ اس کی بہار آنکھوں میں
فقط ہو یار مرا جلوہ بار آنکھوں میں
بَسا رہے وہی لَیل و نَہار آنکھوں میں
’’کچھ ایسا کردے مرے کِردگار آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں‘‘
جَلا ہے جب سے یہ سوزوگُداز کا دیپک
امید دیتی ہے بابِ حبیب پر دستک
کہ کھول بھی دے ذرا اپنےوَصل کاپھاٹک
’’نظر نہ آیا قرارِ دلِ حَزیں اب تک
نگاہ رہتی ہے یوں بیقرار آنکھوں میں‘‘
جو میرے شوق کا اب جائزہ لیاجائے
اِس اِضطِراب کی نسبت سے کیا کہاجائے
یہ ایک خَدشَہ مگر پیش کردیاجائے
’’یہ دل تڑپ کے کہیں آنکھوں میں نہ آجائے
کہ پھر رہا ہے کسی کا مزار آنکھوں میں‘‘
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا کیاجائے
قرار کیلئے چل کر کہاں رہا جائے
کَرِشمَہ اپنا نہ یہ بیکلی دکھا جائے
’’یہ دل تڑپ کے کہیں آنکھوں میں نہ آجائے
کہ پھر رہا ہے کسی کا مزار آنکھوں میں‘‘
دکھائے تو جو کمال اپنی چشمِ انور کا
تو دم میں جی اٹھے مارا ہوا مُقدَّر کا
اِ دھر بھی دیکھ لے نالہ یہ ایک بے پر کا
’’یہ حال ہے تری فرقت میں تیرے مضطر کا
کہ اشک آتے ہیں بے اختیار آنکھوں میں‘‘
کچھ ایسی صورتِ جاناں سےمجھ کو
نسبت ہو کہ روشن اُس کی بدولت مری حقیقت ہو
لحد میں اس کی طرف یوں مری اشارت ہو
’’فرشتو! پوچھتےہو مجھ سےکس کی امت ہو
لو دیکھ لو یہ ہے تصویرِ یار آنکھوں میں‘‘
بڑے غریب غم آشام کی ہیں یہ آنکھیں
حصولِ دید میں ناکام کی ہیں یہ آنکھیں
بجا تو یہ ہے کہ بس نام کی ہیں یہ آنکھیں
’’تمھیں نہ دیکھیں توکس کام کی ہیں یہ آنکھیں
کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں‘‘
عیاں ہے آپ کی آنکھوں سے شانِ مخموری
تبھی ہیں آپ سَراپائے جَذبِ منصوری
جبھی ہیں سوزِ اُوَیسی کی شمعِ کافوری
’’پیاہے جامِ محبت جو آپ نے نوری!
ہمیشہ اُس کا رہے گا خُمار آنکھوں میں‘‘