برکلامِ نوریؔ بریلوی علیہ الرحمہ
’’مقبولِ دعا کرنا منظورِ ثنا کرنا ‘‘
تضمین نگار: محمد مشاہدرضا عبیدؔالقادری
یہ لطف مرے اوپر یا شاہِ دَنیٰ کرنا
ہستی کو مری اپنی الفت میں فنا کرنا
مجھکو نہ کسی صورت مقہورِ انا کرنا
’’مقبولِ دعا کرنا منظورِ ثنا کرنا
مِدحت کا صِلہ دینا مقبول ثنا کرنا‘‘
ہے جن کا وتیرہ ہی عالم پہ دَیا کرنا
فیضان و سخاوت کی برسات کیا کرنا
ہر ایک سوالی کو مرہونِ عطا کرنا
’’دل ذکرِ شریف ان کا ہر صبح ومسا کرنا
دن رات جپا کرنا ہر آن رٹا کرنا‘‘
اِس طرح مرا نخلِ امید ہرا کرنا
غارِ دلِ ویراں کو تم ثَور وحِرا کرنا
تا حشر اسے اپنے جلووں سے بھرا کرنا
’’سینے پہ قدم رکھنا دل شاد مرا کرنا
دردِ دلِ مُضطر کی سرکار دوا کرنا‘‘
بیچاروں کو ہو مژده ، بیکاروں کو ہو مژده
ملتا ہے یہاں اپنی امیدسے بھی زیادہ
تا روزِ جزا اینجا ہر سائلے خوش بادا
’’ہے عام کرم ان کا اپنے ہوں کہ ہوں اعدا
آتاہی نہیں گویا سرکار کو ” لا ” کرنا‘‘
درہائے سلاطیں سے مغموم پھرا کوئی
تنگ آکے نہ پاکے کچھ مقسوم پھرا کوئی
بیچارہ رہا کوئی مظلوم پھرا کوئی
’’مایوس گیا کوئی محروم پھرا کوئی
دنیا کے سلاطیں کو کب آیا عطا کرنا‘‘
مت پوچھو اے کم ظرفو! آقا ہمیں کیا دیں گے
وہ اپنے سوالی کو حاجت سے سوا دیں گے
ہر درد مٹا دیں گے ہر رنج بھلا دیں گے
’’واللہ وہ سن لیں گے اور دل کی دوا دیں گے
بیکار نہ جائے گا فریاد و بُکا کرنا‘‘
آقا مرے جینے کا انداز نرالا ہو
ہر دُکھ مری نظروں میں مثلِ گُلِ لالہ ہو
راحت مجھے دنیا میں آفت کا ہمالہ ہو
’’قسمت میں غمِ دنیا جنت کا قَبالہ ہو
تقدیر میں لکھا ہو جنت کا مزا کرنا‘‘
نوری کی نگاہوں کو کونین میں بھائے وہ
روشن ہوا جن سے جَگ جب شان سے آئے وہ
جب پائے شرَف اُن کا تقدیر سے پائے وہ
’’کیوں نقشِ کَفِ پا کو دل سے نہ لگائے وہ
ہے آئنۂ دل کا نوری کو جَلا کرنا‘‘