برکلامِ اختربریلوی علیہ الرحمہ

’’عاقبت کی ملتی ہے آگہی مدینے میں ‘‘

تضمین نگار: محبوب گوہرؔ اسلام پوری​

چاہتوں کا نذرانہ لے کے مستقل جاتا
پیچھے پیچھے میں جاتا آگے آگے دل جاتا
گلشن محبت میں تازہ پھول کھل جاتا

’’داغ فرقت طیبہ قلب مضمحل جاتا
کاش گنبد خضری دیکھنے کو مل جاتا‘‘

ہوتی فضل کی بارش میرے آشیانے پر
ہر گھڑی نظر جاتی نور کے خزانے پر
سوچتا ہوں یہ اکثر ،میں غریب خانے پر

’’دم مرا نکل جاتا ان کے آستانے پر
ان کے آستانے کی خاک میں ، میں مل جاتا‘‘

عاقبت کی ملتی ہے آگہی مدینے میں
غم سے دور رہتی ہے زندگی مدینے میں
اس لئے تو ہے عاشق ملتجی،مدینے میں

’’موت لے کے آجاتی زندگی مدینے میں
موت سے گلے مل کر زندگی میں مل جاتا‘‘

فیض اعلیٰ حضر ت ہے ، اور عنایت نوری
حاضریٔ طیبہ کی مل گئی ہے منظوری
کَھل رہی تھی عرصہ سے شہر پاک کی دوری

’’ان کے در پہ اخترؔ کی حسرتیں ہوئیں پوری
سائل درِ اقدس کیسے منفعل جاتا‘‘

Menu