برکلامِ اختر  بریلوی علیہ الرحمہ

’’تم چلو ہم چلیں سب مدینے چلیں‘‘

تضمین نگار: علامہ پروفیسر سید خرم ریاض شاہ  اختر القادری​

سرمدی زندگی ہم بھی جینے چلیں
آب زرقہ وزمزم کو پینے چلیں
چا ک اپنے گریبا ں کو سینے چلیں

تم چلو ہم چلیں سب مدینے چلیں
جانب طیبہ سب کے سفینے چلیں

رنج وغم سب بھلا ؤ مدینے چلیں
غفلتیں اب مٹا ؤ مدینے چلیں
ہو ش میںآبھی جا ؤ مدینے چلیں

مے کشو آؤآؤ مدینے چلیں
با دۂ خلد کے جا م پینے چلیں

زند گی کی حقیقت سے وہ جا ملے
وہ بقا کے گلوں کی مہک میں بسے
مو ت کی تلخیوں سے تو وہ بچ رہے

جی گئے وہ مدینے میں جو مر گئے
آؤ ہم بھی وہاں مر کے جینے چلیں

صبح جا بھی چکی شام منڈ لاگئی
زند گی کی ڈگر اب ہے دھندلاگئی
جینے کی بھی تمنا ہے کمھلا گئی

زندگی اب سر زند گی آگئی
آخری وقت ہے اب مدینے چلیں

تا زگی تا زگی دلبری دلبری
آفریں آفریں دل کشی دل کشی
نغمگی نغمگی زندگی زندگی

جان نو را ہ جانا ں میں یوں مل گئی
آنکھ میچی کہا بے خو دی نے چلیں

جب کہ ہم نے مدینے کا رستہ لیا
ہر مصیبت نے ہم سے کنا رہ کیا
مر نے والاکو ئی جیسے پھر سے جیا

شوق طیبہ نے جس دم سہا را دیا
چل دیئے ہم کہا بے کسی نے چلیں

زندگی کا سفر جب کہ طے ہو گیا
مو ت کا مر حلہ سر پہ آہی پڑا
اب سوئے طیبہ دل ہے مچلنے لگا

طا ئر جا ں مدینے کو جب اڑ چلا
زند گی سے کہا زند گی نے چلیں

راہ طیبہ ہے وا تم کہا ں رہ گئے
عاشقو تم بھلا کیوں حیرا ں رہ گئے
پہنچے ان کا کرم تم جہاں رہ گئے

راہ جا نا ں میں جب نا تواں رہ گئے
دل کو کھینچا کہا بے کلی نے چلیں

یوں حیا ت ابد کا ہے مژ دہ سنا
جام وصل الٰہ مسکرا کے پیا
مرشد حق کی خرم ؔسنو یہ صدا

اخترؔ خستہ بھی خلد میں چل دیا
جب صدا دی اسے مرشدی نے چلیں

 

Menu