برکلامِ سبطینؔ بریلوی علیہ الرحمہ
’’آستانہ پہ اگر ناصیہ فرسائی ہو‘‘
تضمین نگار: علامہ محمد اشرف رضا قادری سبطینی
آرزوؤں کے گلستاں میں بہار آئی ہو
سر پہ سرکار کی رحمت کی گھٹا چھائی ہو
میری قسمت کی فرشتوں میں پذیرائی ہو
آستانہ پہ اگر ناصیہ فرسائی ہو
تب تمنا دل سبطین کی برآئی ہو
گرد طیبہ کا عقیدت سے بناؤ سرمہ
خوب تشہیر کرو خوب دکھاؤ سرمہ
سب سے بہتر ہے یہی سب کو بتاؤ سرمہ
خاکِ دربارِ محمد کا لگاؤ سرمہ
قلب میں نور ہو اور آنکھوں میں بینائی ہو
دل کا صحرا بنے گلزار تو میں رقص کروں
ہو تمنا یہ ثمر بار تو میں رقص کروں
سامنے ہوں شہ ابرار تو میں رقص کروں
حشر میں جب کہ ہو دیدار تو میں رقص کروں
میں تماشا بنوں مخلوق تماشائی ہو
گل تروتازہ کھلے دل کی کلی میں یارب
رہوں سرشار سدا حب علی میں یارب
کچھ الگ ہو مری پہچان سبھی میں یارب
رشک عشاق بنوں عشق نبی میں یارب
وہ ہے یکتا تو مجھے عشق میں یکتائی ہو
سارے عالم میں ہے مشہور سخاوت ان کی
کون ہے جس پہ نہیں ہوتی عنایت ان کی
بخش دینا قسم اللہ ہے فطرت ان کی
عیب پوشئ گنہگار ہے عادت ان کی
کب وہ چاہیں گے مری حشر میں رسوائی ہو
سنگ اسود کے لیا کرتے ہیں جم کے بوسے
عشق والے نہیں لیتے ہیں صنم کے بوسے
دل میں ہے شوق تو لے ارض حرم کے بوسے
ہرقدم فتح وظفر لیں گے قدم کے بوسے
شرط یہ ہے تمہیں ایمان میں یکتائی ہو
حق ہے اشرف وہی کونین کے مونس ہوں گے
ہاں وہی اشک بھرے نین کے مونس ہوں گے
میرے سرکار ہی دارین کے مونس ہوں گے
جبکہ مرقدمیں بھی سبطین کے مونس ہونگے
اس کا کیا غم کہ مجھے قبر میں تنہائی ہو