کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ

’’وہ سوۓ لالہ زار پھرتے ہیں ‘‘

تضمین نگار: تضمین نگار: میرزا امجد رازؔی

آنکھ کے آر پار پھرتے ہیں 
جلوے جنّت نگار پھرتے ہیں
مہکے عالم ہزار پھرتے ہیں

وہ سوۓ لالہ زار پھرتے ہیں 
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں

کیسے جاہل گنوار پھرتے ہیں
مار کھاتے ہیں زار پھرتے ہیں
مثلِ صحرا غبار پھرتے ہیں

جو ترے در سے یار پھرتے ہیں
دربدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں

کیں عطائیں رسولِ اکرم نے
لَا سنا تھا نہ گوشِ منعَم نے
منہ ہمارے نہ دیکھے تھے غم نے

آہ کل عیش تو کِیے ہم نے
آج وہ بے قرار پھرتے ہیں

حکم چلتا ہے آسمانوں پر
دیکھ تقسیمِ مہ اشاروں پر
مہر پلٹے ہے الٹے پاؤں پر

اُن کے ایما سے دونوں باگوں پر
خیل لیل و نہار پھرتے ہیں

جلوۂ تاب دار پر قدسی
لوٹتے ہیں غبار پر قدسی
روز ستّر ہزار پر قدسی

ہر چراغِ مزار پر قدسی
کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں

گردشیں مجھ سے دور کیوں نہ رہیں
میری جانب عطائیں کیوں نہ بڑھیں
ہیں جو بدخواہ میرے وہ سن لیں

اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں
مانگتے تاجدار پھرتے ہیں

بن کے روحِ رواں اثر آۓ
جان سے بھی قریب تَر آۓ 
چلیے جاں ہی کہیں ، مگر آۓ

جان ہیں جان کیا نظر آۓ
کیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیں

عکس اترا ہے دل کے شیشوں میں
شور برپا ہے عندلیبوں میں
نغمہ ہے اک یہ ساری تانوں میں

پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں

لاکھوں ہیں پیش عرضِ حاجت پر
لاکھوں تشریحِ حالِ امّت پر
لاکھوں تقسیمِ خوانِ نعمت پر

لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پر
لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں

روز و شب رحمتوں کے نقّارے
بجتے ہیں بہرِ کارِ بے کارے
دل گرفتوں کے دیکھ نظًارے

وردیاں بولتے ہیں ہرکارے
پہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں

ہو وجہ تم کہ جس سے شاد ہیں ہم
وقتِ مولود تم کو یاد ہیں ہم
مانتے ہیں کہ بد نہاد ہیں ہم

رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم
مول کے عیب دار پھرتے ہیں

تھر تھراتے ہیں میرے وہم و گماں
چھوڑ جاۓ گا حلقۂ یاراں
ہوں حسابِ عمل پہ نوحہ کناں

واۓ غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں
پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں

کان دھر رک ذرا مسافر سن
بات بہرِ خدا مسافر سن
تجھ سے ہے التجا مسافر سن

بائیں رستے نہ جا مسافر سن
مال ہے راہ مار پھرتے ہیں

کچھ کسی سے نہیں شناسائی
خوف ہے تُو ہے اور تنہائی
قربِ منزل کے اے تمنّائی

جاگ سنسان بَن ہے رات آئی
گرگ بہرِ شکار پھرتے ہیں

تیرا دھوکا کمال ہے ظالم
کتنا تو بد خصال ہے ظالم
تجھ سے آخر سوال ہے ظالم

نفس ، یہ کوئی چال ہے ظالم
جیسے خاصے بجار پھرتے ہیں

” عرضِ مطلب ” کی طرزِ حیرت زا
کس کے عشقِ رسا نے کی پیدا
فکرِ رازؔی فدا ، کسی نے کہا

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضؔا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں

Menu