کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ

نار دوزخ کو چمن کر دے بہار عارض

تضمین نگار: علامہ خالد رومؔی نظامی چشتی


خمسہ بر نعت بلبل باغ مدینہ، رضاۓ سحر بیاں، واصف شاہ ھدی،

حضرت مولوی احمد رضا خاں قادری برکاتی رحمتہ اللہ تعالی علیہ



دست ادراک میں آۓ نہ وقار عارض
حسن گلزار تیقن ہے نثار عارض
داد تکریم و تلطف ہے شعار عارض
’’نار دوزخ کو چمن کر دے بہار عارض
ظلمت حشر کو دن کر دے نہار عارض‘‘


تیرے اطوار خدا رکھے،یہ انداز آہا !
سبزہء خط،خط گلزار سے احوج نہ رہا
میں نے کب ایسا سخن ذوق عقیدت میں کہا ؟
’’میں تو کیا چیز ہوں خود صاحب قرآں کو شہا !
لاکھ مصحف سے پسند آئی بہار عارض‘‘


یکتا اقلیم تجمل میں ترا حسن رہا
مرض ضعف میں تو ہے صلہء اشک بہا
تجھ کو خود خالق کونین نے والشمس کہا
’’میں تو کیا چیز ہوں خود صاحب قرآں کو شہا
لاکھ مصحف سے پسند آئی بہار عارض‘

اس سے شاداب ہر اک گل چمن خوبی کا
سلسلہ جس سے مٹا بخت کی معتوبی کا
وصف کیا ہوگا اب اس چہرہء مکتوبی کا
’’جیسے قرآن ہے ورد اس گل محبوبی کا
یوں ہی قرآں کا وظیفہ ہے وقار عارض‘‘


یوں کچھ اور بھی آۓ ہیں پیمبر لیکن
حسن تنعیت کا سارے نہیں جوہر لیکن
بحر خوبی کا یہی ٹھہرا شناور لیکن
’’گرچہ قرآن ہے نہ قرآں کی برابر لیکن
کچھ تو ہے جس پہ ہے وہ مدح نگار عارض‘‘


کیوں نہ آۓ مہ و انجم کو یہاں غبطہ سے شرم
گل سے نازک بھی ہے وہ اور نزاکت سے ہے نرم
جس کی طلعت سے ملا سبزہء رعنائی کو برم
’’طور کیا عرش جلے دیکھ کے وہ جلوہء گرم
آپ عارض ہو مگر آئنہ دار عارض‘‘


جی کی رؤیت پہ ہوۓ صدقے سبھی اہل نظر
جن پہ قربان ہیں تقدیس کے سارے دفتر
جن کی ہر ایک ادا دشمن ایماں،خنجر
’’طرفہ عالم ہے وہ قرآن ادھر دیکھیں ادھر
مصحف پاک ہو حیران بہار عارض‘‘


اس کے جلوؤں کی نظر آتی ہے ہر سو برسات
چاندنی مانگتی ہے اس سے ضیا کی خیرات
کہتا ہوں اب یہی آخر میں بس اک نکتہ کی بات
’’ترجمہ ہے یہ صفت کا، وہ خود آئینہء ذات
کیوں نہ مصحف سے زیادہ ہو وقار عارض‘‘


طور کہ شمع تجلی بھی ہے اس پر نازاں
نازش قصر سلیمان ہے جس کا ایواں
اس کے ایمان و تیقن پہ ہے عالم حیراں
’’نام حق پر کرے محبوب دل و جاں قرباں
حق کر عرش سے تا فرش نثار عارض‘‘


حسن گفتار پہ سر دھنتا ہے ہر مرد بزاع
سربسر نور کا آئینہ ھے وہ شمس بقاع
ہر ادا قصر تجمل کو ہے وجہ اقماع
’’مشکبو زلف سے رخ، چہرہ سے بالوں میں شعاع
معجزہ ہے حلب زلف و تتار عارض‘‘


اللہ اللہ ! یہ حشم نذر گدایاں ہو قبول
زیر ہے لوح و قلم نذر گدایاں ہو قبول
سر تسلیم ہیں خم نذر گدایاں ہو قبول
’’حق نے بخشا ہے کرم نذر گدایاں ہو قبول
پیارے اک دل ہے، وہ کرتے ہیں نثار عارض‘‘


کس سے دنیا میں اب امید لگاۓ محتاج
آ کے بیٹھا ہے یہاں سر کو جھکاۓ محتاج
تیری درگاہ میں روؔمی سا گداۓ محتاج
’’آہ بے مائگیٔ دل کہ رضؔاۓ محتاج
لے کر اک جان چلا بہر نثار عارض‘‘

Menu