کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے

تضمین نگار: میرزا امجد راؔزی


اے کثرت کو وحدت سے مِلوانے والے
خرد کو حضوری میں پنہچانے والے
اندھیروں کے پردوں کو اُٹھوانے والے
’’ چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
مرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے ‘‘

یہ مانا تلاطم میں ہے بحرِ رحمت
ذرا ضوفشاں اور کر بدرِ رحمت
ہو بنجر زمینوں پہ کچھ نظرِ رحمت
’’برستا نہیں دیکھ کر ابرِ رحمت
بَدوں پر بھی برسا دے برسانے والے‘‘

چمن زار پھولا پھلا تجھ کو رکھے
مہکتا لہکتا سدا تجھ کو رکھے
تر و تازہ خوانِ عطا تجھ کو رکھے
’’مدینے کے خطّے خدا تجھ کو رکھے
غریبوں فقیروں کے ٹھہرانے والے‘‘

خبیرِ گزشتہ آئندہ ہے واللّہ
ترا قدسی ” پالا پرندہ ” ہے واللّہ
بذاتِ خدا تو کنندہ ہے واللّہ
’’تو زندہ ہے واللّہ تو زندہ ہے واللّہ
مرے چشمِ عالم سے چھپ جانے والے‘‘

گرفتارِ رنج و الم ہوں میں دیکھو
مرا قبل اس سے کوئی فیصلہ ہو
ترا ہوں ، بھروسہ ہے تجھ پر یہ مجھ کو
’’میں مجرم ہوں آقا مجھے ساتھ لے لو
کہ رستے میں ہیں جا بہ جا تھانے والے‘‘

خیالِ ادب کو بہم رکھ کے چلنا
تو خود کو بزیرِ کرم رکھ کے چلنا
وجود اپنا مثلِ عدم رکھ کے چلنا
’’حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ؟
ارے سر کا موقعہ ہے او جانے والے‘‘

نہیں وقتِ غفلت اے پیارے گداگر 
اٹھا اپنا کاسہ لپیٹ اپنا بستر
ترستا تھا قطرے کو ، پی اب سمندر
’’چل اٹھ جبہ فرسا ہو ساقی کے در پر
درِ جود اے میرے سستانے والے‘‘

کبھی تو ترے نعت خوانوں سے الجھیں
کبھی اہلِ حق کے خطابوں سے الجھیں
کتابوں سے الجھیں حوالوں سے الجھیں
’’ترا کھائیں تیرے غلاموں سے الجھیں
ہیں منکر عجب کھانے غرّانے والے‘‘

شب و روز ہر سُنّی جاگا رہے گا
سرِ عام پہرہ وہ دیتا رہے گا
سلاطین کو یہ بتاتا رہے گا
’’رہے گا یونہی اُن کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے‘‘

کریں گے وہ محشر میں مشکل کشائی
دلوں سے اتر جاۓ گی غم کی کائی
انہیں دیکھ کر کہہ اُٹھے گی خدائی
’’اب آئی شفاعت کی ساعت اب آئی
ذرا چین لے میرے گھبرانے والے‘‘

اے رازؔی نہ بحثوں میں تم جاں کھپانا
بُرا دَور ہے اپنا ایماں بچانا
یہ ہے بات گُر کی یہ سب کو بتانا
’’ رضؔا نفس دشمن ہے دم میں نہ آنا
کہاں تم نے دیکھے ہیں چندرانے والے‘‘

Menu