کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ

راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رُو محرم نہیں

تضمین نگار: مرزا امجد رازی


کیا ہُوا گر اے طبیبِ عشق جو مرہم نہیں
لا علاج ایسا بھی یہ اپنا دلِ بے دَم نہیں
انتخابِ کیفِ جلوہ کو اگرچہ ہم نہیں
’’ راہِ عرفاں سے جو ہم نادیدہ رُو محرم نہیں
مصطفےٰ ہے مسندِ ارشاد پر کچھ غم نہیں‘‘

قضیۂ مشروطہ عامہ ، پہلے سمجھو عاقلو
ٹھوس حُجّت کوئی استقرا کی لاؤ ناطقو
مجھ کو زیرِ فتوئ تکفیر لانے سے رہو
’’ہوں مسلماں گرچہ ناقص ہی سہی اے کاملو
ماہیت پانی کی آخر یم سے نم میں کم نہیں‘‘

اُدنُ مِنّی کی ہوائیں تھیں لقا کے باغ میں
موجۂ ہستی لہک اُٹّھا فنا کے باغ میں
زمزمے تھے کیا سے کیا رمز و خفا کے باغ میں
’’غنچے مَا اَوحیٰ کے جو چٹکے دَنیٰ کے باغ میں
بلبلِ سدرہ تک اُن کی بُو سے بھی محرم نہیں‘‘

حشر گاہِ تشنگی میں موجیں کِس کی جیش جیش
کِس کی لہرِ آب ہے پیاسے لبوں کو پیش پیش
کِس میں ٹھہراؤ ہے اور کس میں بہاؤ کا ہے کیش
’’اس میں زم زم ہے کہ تھم تھم اس میں جم جم ہے کہ بیش
کثرتِ کوثر میں زم زم کی طرح کم کم نہیں‘‘

دستِ عیسیٰ میں بھی دم خم ایسے کچھ دیکھے نہ تھے
اور یدِ بیضا میں بھی ایسے کہاں تھے معجزے
حاملِ شانِ رمیٰ کا کیا مقابل آ سکے
’’پنجۂ مہرِ عرب ہے جس سے دریا بہہ گئے
چشمۂ خورشید میں تو نام کو بھی نم نہیں‘‘

جس کے اِک خطبے میں محشر تک کی ہر روداد ہو
جس کے آگے علمِ آدم نقشۂ فریاد ہو
لوح جس دریا کی بس اِک موجِ جنبش باد ہو
’’ایسا اُمّی کس لئے منّت کشِ استاد ہو
کیا کفایت اس کو اِقراء رَبُّکَ الاَکرَم نہیں ؟‘‘

دل جلے پھٹتے جگر آتش نفَس تشنہ لبی
پاؤں شل ہاتھوں میں رعشہ جسم ٹوٹا جاں تھکی
گرمئ محشر کے ایسے سخت عالم کی گھڑی
’’اوس مہرِ حشر پر پڑ جاۓ پیاسو تو سہی
اُس گلِ خنداں کا رونا گریۂ شبنم نہیں‘‘

مہر و مہ ارض و فلک وقت و زماں لیل و نہار
نوری و ناری و خاکی کائناتِ صد ہزار
حسنِ جنّت عرشِ اعظم کرسئ پروردگار
’’ہے انہیں کے دم قدم کی باغِ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا گر وہ نہ ہوں عالم نہیں‘‘

بارگاہِ بے نیازی میں ہوں مصروفِ دعا
حرفِ رازؔی معتبر ہو جاۓ بہرِ مدّعا
ہے نواۓ درد میری بازگشتِ عشق زا
’’سایۂ دیوار و خاکِ در ہو یارب اور رضؔا
خواہشِ دیہیمِ قیصر شوقِ تختِ جم نہیں‘‘

Menu