کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ

 چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے(تضمین ثانی)

تضمین نگار: میرزا امجد راؔزی


جو اعیانِ ثابت ہیں کہلانے والے
قلم سے سرِ لوح تک آنے والے
وہ کیفِ ھبا میں بکھر جانے والے

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
مرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے

نہ آداب و پاسِ وفا و شریعت
ہے ہر فردِ عصیاں بقیدِ خجالت
بہ لوحِ جبیں داغِ رسواۓ امّت

برستا نہیں دیکھ کر ابرِ رحمت
بدوں پر بھی برسا دے برسانے والے

لبِ ہستی ” حرفِ دعا ” تجھ کو رکھے
اجابت ” جمالِ ادا ” تجھ کو رکھے
عمل کی جزا ” مدّعا ” تجھ کو رکھے


مدینے کے خطّے خدا تجھ کو رکھے
غریبوں فقیروں کے ٹھہرانے والے

تو آثارِ اسماء کا نقشہ ہے واللّہ
تو کُن کے دوائر کا نقطہ ہے واللّہ
تو بے میم احمد کا جلوہ ہے واللّہ


تو زندہ ہے واللّہ تو زندہ ہے واللّہ
مرے چشمِ عالم سے چھپ جانے والے

اشارہ کریں وہ سواری کو روکو
مجھے دیکھ کر جب وہ فرمائیں بولو
کروں گا میں محشر میں یوں عرض لوگو

میں مجرم ہوں آقا مجھے ساتھ لے لو
کہ رستے میں ہیں جا بہ جا تھانے والے

حضور اُن کے گردن کو خم رکھ کے چلنا
تو سانسوں کی رفتار کم رکھ کے چلنا
تو آنکھیں باندازِ نم رکھ کے چلنا

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ؟
ارے سر کا موقعہ ہے او جانے والے

قطاروں میں ہے اب ہجومِ گداگر
چھلکتے ہیں ہاتھوں میں کوثر کے ساغر
عجب دل رُبا دیکھ پیاسوں کا منظر

چل اُٹھ جبہ فرسا ہو ساقی کے در پر
درِ جُود اے میرے مستانے وا لے

احادیث و قرآں کو عقلوں پہ پرکھیں
مفاہیمِ لفظ و معانی کو بدلیں
اطاعت میں حصرِ ” فقد ” کو نہ سمجھیں

ترا کھائیں تیرے غلاموں سے اُلجھیں
ہیں منکر عجب کھانے غرّانے والے

یہ دَورِ شب و روز چلتا رہے گا
عدم رنگ اپنا بدلتا رہے گا
زمانہ انہیں زندہ لکھتا رہے گا

رہے گا یونہی اُن کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے

وہ پیشِ حساب اُن کی امّت اب آئی
وہ پُر زور اُن کی حمایت اب آئی
کرم پر وہ مائل طبیعت اب آئی

لو آئی شفاعت کی ساعت اب آئی
ذرا چین لے میرے گھبرانے والے

اے رازیؔ نہ بحثوں میں تم جاں کھپانا
بُرا دَور ہے اپنا ایماں بچانا
یہ ہے بات گُر کی یہ سب کو بتانا

رضاؔ نفس دشمن ہے دم میں نہ آنا
کہاں تم نے دیکھے ہیں چندرانے والے

Menu