کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
تضمین نگار: سید اشرف میاں
شبِ تار میں سُوئی دِکھلانے والے
زمیں ، چاند ، سورج کو دمکانے والے
اندھیروں سے لعل و گہر لانے والے
’’چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
مرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے‘‘
کلامِ الٰہی ہمیشہ رہے گا
جو اونچا ہمیشہ تھا اونچا رہے گا
رَفعنا کا جھنڈا چمکتا رہے گا
’’رہے گا یوں ہی اُن کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہوجائیں جل جانے والے‘‘
وہ ہے سامنے سبز گنبد سنبھلنا
اگر چاہتے ہو مقدر سمجھنا
تو طیبہ کی گلیوں میں پلکوں سے چلنا
’’حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے‘‘
زمانے کے کیوں کھائیں ہم جاکے دھکّے
غلام اُن کے در کا مزہ کیوں نہ چکھّے
وہیں جاکے طیبہ میں گر جائے تھک کے
’’مدینے کے خطّے خدا تجھ کو رکھّے
غریبوں فقیروں کے ٹھہرانے والے‘‘
کریمی کو لے کر سخاوت وہ آئی
جلو میں لیے اپنے الفت وہ آئی
سرِ حشر رحمت کی صورت وہ آئی
’’ آئی شفاعت کی ساعت اب آئی
ذرا چین لے میرے گھبرانے والے‘‘
رسالت کی عزت کے کاموں سے الجھیں
زیارت سے الجھیں ، سلاموں سے الجھیں
خدا دوست ولیوں کے ناموں سے الجھیں
’’ترا کھائیں تیرے غلاموں سےالجھیں
ہیں منکر عجب کھانے غرّانے والے‘‘
جو آئے سبھی کے لیے بن کے رحمت
جو دشمن کی کرتے تھے جاکر عیادت
قمیص اپنی دے دی بہ شانِ سخاوت
’’برستا نہیں دیکھ کر ابرِ رحمت
بدوں پر بھی برسادے برسانے والے‘‘
بہت ناتواں ہوں مرا ہاتھ لے لو
میں دشمن کے نرغے میں ہوں ساتھ لے لو
گرا پڑ رہا ہوں مرا ہاتھ لے لو
’’میں مجرم ہوں آقا مجھے ساتھ لے لو
کہ رستے میں ہیں جابجا تھانے والے‘‘
بَلاؤں سے گر چاہو بچنا بچانا
تو اشرفؔ سے کہنا کہ نعتیں سنانا
کہ اُس نے رضا ؔ سے سنا ہے ترانہ
’’رضاؔ نفس دشمن ہے دم میں نہ آنا
کہاں تم نے دیکھے ہیں چندرانے والے‘‘