کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
تضمین نگار: پروؔیز اشرفی احمد آبادی
سرِ لامکاں پل میں او جانے والے
خدا تک خدائی کو پہچانے والے
کلامِ الٰہی کو لے آنے والے
’’ چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
مرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے‘‘
ہو روشن بیاباں یا ہو کوہِ ظلمت
سلگتی چٹانیں ہوں یا گل کی نکہت
ہو گیلی زمیں یا کہ سنگلاخ پربت
’’برستا نہیں دیکھ کر ابرِ رحمت
بدوں پر بھی برسا دے برسانے والے‘‘
سدا تجھ پہ ابرِ کرم ہوں برستے
بسے عطرِ جنت سے ہوں تیرے رستے
تری خاک کو ماہ و انجم ترستے
’’مدینے کے خطے خدا تجھ کو رکھے
غریبوں فقیروں کے ٹھہرانے والے‘‘
نہیں تجھ سے محروم ہندہ ہے واللہ
ترا میرے دل کا پرندہ ہے واللہ
تو ہی میرا بخشش دہندہ ہے واللہ
’’تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مری چشمِ عالم سے چھپ جانے والے‘‘
درودوں کی حاضر ہے بارات لے لو
سلاموں کی دلکش یہ سوغات لے لو
اے صبحِ ازل ہوں سیاہ رات لے لو
’’میں مجرم ہوں آقا مجھے ساتھ لے لو
کہ رستے میں ہیں جابجا تھانے والے‘‘
طفیلِ سراقہ مجھے ساتھ لے لو
نیا ہے علاقہ مجھے ساتھ لے لو
کہ ہو کچھ افاقہ مجھے ساتھ لے لو
’’میں مجرم ہوں آقا مجھے ساتھ لے لو
کہ رستے میں ہیں جابجا تھانے والے‘‘
جو شہرِ نبی کی طرف تو نکلنا
لباسِ تخیل کو اپنے بدلنا
ارے آگیا لو مدینہ سنبھلنا
’’حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے‘‘
ہرے رنگ کے یہ عماموں سے الجھیں
کبھی بے سبب مدنی کاموں سے الجھیں
کبھی سنیوں کے اماموں سے الجھیں
’’ترا کھائیں تیرے غلاموں سے الجھیں
ہیں منکر عجب کھانے غرانے والے‘‘
سدا ان کا دریائے عظمت بہے گا
تُو نجدی بڑے سخت جھٹکے سہے گا
ببانگِ دہل خود یہ قرآں کہے گا
’’رہے گا یونہی ان کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے‘‘
صدا رَبِّ ھَب لی کی کس نے لگائی؟
گناہوں کے پربت لگے بننے رائی
ارے یہ تو ہے آمدِ مصطفائی
’’اب آئی شفاعت کی ساعت اب آئی
ذرا چین لے میرے گھبرانے والے‘‘
دکھاوے کی لعنت سے خود کو بچانا
عمل نیک فضلِ الٰہی بتانا
کبھی کبر کی بانسری مت بجانا
’’رضؔا نفس دشمن ہے دم میں نہ آنا
کہاں تو نے دیکھے ہیں چندرانے والے‘‘