کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ

نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا

تضمین نگار: محبوب گوہر اسلام پوری ، ہند


چھا گیا ابرِ کرم موسمِ طوفان گیا
چادرِ نور فضاؤں میں کوئی تان گیا
سنگِ بے جان بھی دیکھا تو اسے جان گیا
’’ نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلمدان گیا‘‘

مال و زر رکھ کے بھی مفلس رہا مجبور رہا
تیرے دربارِ کرم سے جو بشر دور رہا
تیری الفت جسے حاصل ہوئی مسرور رہا
’’دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا‘‘

نہ حسد دل میں رکھا اور نہ لیا بیر سے کام
شر سے مطلب نہ رہا یعنی رکھا خیر سے کام
کیوں ہو کعبے کے مسافر کو بھلا دیر سے کام
’’انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا‘‘

بہرِ تعظیم کھڑا ہونے کی عادت نہ سہی
بارہویں تیرے یہاں وجہِ مسرت نہ سہی
گھر پہ مانا کہ ترے ذکرِ ولادت نہ سہی
’’اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا‘‘

عقل تیار ہے تو عشق کی حد مانگ ان سے
ہو جو تعظیم کی قائل وہ خرد مانگ ان سے
روزِ محشر کے لیے کچھ تو سند مانگ ان سے
’’آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا‘‘

لے کے ایمان کے گوہؔر وہ خزینے پہنچے
چومنے بابِ شفاعت کے وہ زینے پہنچے
کتنے ارمانوں کے طیبہ میں سفینے پہنچے
’’جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضؔا سارا تو سامان گیا‘‘

Menu