کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ

قافلے نے سوۓ طیبہ کمر آرائی کی

تضمین نگار : میرزا امجد راؔزی


آس دِل میں ہے مرے جلوۂ خضرائی کی
آنکھ سے حسرتیں گِرتی ہیں تمنّائی کی
میں نے غم ، غم نے مرے ساتھ شناسائی کی
’’ قافلے نے سوۓ طیبہ کمر آرائی کی
مشکل آسان الٰہی مری تنہائی کی‘‘

جان پر ظلم کیے اپنی ہی رسوائی کی
خاک آلود ہوۓ ہر جگہ کاسائی کی
بات بننے پہ پہنچ آئی تماشائی کی
’’لاج رکھ لی طمَعِ عفو کے سودائی کی
اے میں قرباں مرے آقا بڑی آقائی کی‘‘

ماء و بے ماء کے ترے آگے جزائر حاضر
سامنے سب ترے اشباہ و نظائر حاضر
نقشِ امکاں کے ترے آگے دوائر حاضر
’’عرش تا فرش ہیں آئینہ ضمائر حاضر
بس قسم کھایئے اُمّی تری دانائی کی‘‘

بس کہ تفصیل ہے تو باقی ہیں سارے اجمال
ایک تو اصل ہے اور باقی ہیں سارے اظلال
کیسے ممکن ہے کہ پوشیدہ ہوں تجھ سے احوال
’’شش جہت سمت مقابل شب و روز ایک ہی حال
دھوم وَالنّجم میں ہے آپ کی بینائی کی‘‘

واہ کیا گردوں شکوہ آپ کا ہے نازِ خرام
مرغِ سدرہ کہ ہے اک حیرتِ پیہم میں مدام
اِس سے بڑھ کر اے شہا پیش ہو کیا حُجّتِ تام
’’پانسو سال کی راہ ایسی ہے جیسے دو گام
آس ہم کو بھی لگی ہے تری شنوائی کی‘‘

کُن کا اسلوب ہے تو اور فکاں کا منہج
مرجعِ علمِ حقائق توئی سب کا مخرج
ہے تری شان کی اُٹھتی ہوئی ایسی سج دھج
’’چاند اشارے کا ہِلا حکم کا باندھا سورج
واہ کیا بات شہا تیری توانائی کی‘‘

پیشِ خاطر نہیں ہے جس کے قد و قامتِ عرش
جس کے آگے ہے خجل تابشِ ہر طلعتِ عرش
جس کی بہتات پہ راؔزی
 ہے اُٹھے حیرتِ عرش
’’تنگ ٹھہری ہے رضؔا جس کے لیے وسعتِ عرش
بس جگہ دِل میں ہے اُس جلوۂ ہرجائی کی‘‘

Menu