کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ

اُن کی مہک نے دل کے غنچے کِھلا دیئے ہیں

تضمین نگار: میرزا امجد راؔزی


چشمِ جنوں سے کِس نے پردے اُٹھا دیئے ہیں
چہرے غموں کے مارے اب مسکرا دیئے ہیں
دائم خموش تھے جو وہ چہچہا دیئے ہیں
بادِ صبا نے گلشن جنبش میں لا دیئے ہیں
’’ اُن کی مہک نے دل کے غنچے کِھلا دیئے ہیں
جس راہ چل دیئے ہیں کوچے بسا دیئے ہیں‘‘

پھیلی ہوئی ہیں خطِّ کثرت پہ اُن کی آنکھیں
ہر آن سائباں ہیں امّت پہ اُن کی آنکھیں
رہتی ہیں سائلوں کی حاجت پہ اُن کی آنکھیں
پیہم رہی ہیں مائل شفقت پہ اُن کی آنکھیں
’’جب آ گئی ہیں جوشِ رحمت پہ اُن کی آنکھیں
جلتے بُجھا دیئے ہیں روتے ہنسا دیئے ہیں‘‘

مشہور گرمِ فتنہ بازار اِس کا کتنا
اعمالِ بے جزا کا انبار اِس کا کتنا
کوتاہئ عمل اور اظہار اِس کا کتنا
ہر زخم حد سے گہرا ہر بار اِس کا کتنا
’’اِک دل ہمارا کیا ہے آزار اِس کا کتنا
تو نے تو چلتے پھرتے مُردے جلا دیئے ہیں‘‘

خیرِ کثیر اُن کے جب دستِ گنج میں ہو
پھر کیوں سکوت نطقِ ہر مدح سنج میں ہو
فالج میں مبتلا ہو کوئی قولنج میں ہو
بیمارِ مصطفےٰ ہو اور شش و پنج میں ہو
’’اُن کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آ گئے ہیں سب غم بھلا دیئے ہیں‘‘

دل جاں طوافِ کوۓ جانانہ کرتے ہوں گے
بابِ عطا نہ کیا کیا ہر روز کُھلتے ہوں گے
کیا کیا نہ جلوے بہرِ خیرات مِلتے ہوں گے
بے دام بھی جہاں پر داموں میں بِکتے ہوں گے
’’ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اُٹھتے ہوں گے
اب تو غنی کے در پر بستر جما دیئے ہیں‘‘

وہ فخرفرشیوں کے وہ ناز عرشیوں کے
قاسم وہ رفعتوں کے ناصر وہ پستیوں کے
خاتم نبوّتوں کے رہبر وہ اُمّیوں کے
مظہر جمالِ حق کے ساقی وہ مستیوں کے
’’اسرا میں گزرے جس دم بیڑے پہ قدسیوں کے
ہونے لگی سلامی پرچم جُھکا دیئے ہیں‘‘

جب سمتِ قبلہ بدلے چاہو تمہاری جانب
پھر کیوں نہ مغفرت کا رُخ ہو تمہاری جانب
حق نے کہا ہے جاؤ ہم کو تمہاری جانب
جُرموں کو لا رہے ہیں رو رو تمہاری جانب
’’آنے دو یا ڈبو دو اب تو تمہاری جانب
کشتی تمہی پہ چھوڑی لنگر اُٹھا دیئے ہیں‘‘

خلدِ بریں کی جانب جاتے اے خوش نصیبو
برخاست بزمِ محشر کر کے اے جانے والو
اِک بار پیچھے مُڑ کر ہم جیسوں کو بھی دیکھو
ہیں گردِ راہ ہم بھی ہم کو بھی ساتھ لے لو
’’دولہا سے اِتنا کہہ دو پیارے سواری روکو
مشکل میں ہیں براتی پُر خار بادیئے ہیں‘‘

دنیا میں کوئی تیری ایسا بھی فرد ہو گا
امّت کے واسطے جو تصویرِ درد ہو گا
روۓ عتاب تیرا اب بھی نہ زرد ہو گا
راتوں کو کون ایسا آتش نبرد ہو گا
’’اللہ کیا جہنّم اب بھی نہ زرد ہو گا
رو رو کے مصطفےٰ نے دریا بہا دیئے ہیں‘‘

تاریک آئینوں میں چہرہ کسی نے مانگا
حسنِ ادا کی خاطر لہجہ کسی نے مانگا
ارض و سما کی حد کا قبضہ کسی نے مانگا
افشاۓ لامکاں کا جلوہ کسی نے مانگا
’’میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دیئے ہیں دُر بے بہا دیئے ہیں‘‘

کہنے کو کہہ رہے ہیں کتنے ہزار عالَم
مدحِ شہِ عرب میں رطب اللسان پیہم
لہرا رہا ہے کس کی فکرِ رسا کا پرچم
راؔزی
 نے جو کہا ہے کہتے ہیں آج وہ ہم
’’ ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضؔا مسلّم
جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھا دیئے ہیں‘‘

Menu