کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ

ہے لبِ عیسیٰ سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں

تضمین نگار: میرزا امجد رازیؔ


باگِ دو عالَم کسی نے یوں سنبھالی ہاتھ میں
دے رہی ہے ہاتھ اپنا ذاتِ عالی ہاتھ میں
کیا عجب رکھتے ہیں آقا خوش خصالی ہاتھ میں
’’ ہے لبِ عیسیٰ سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں
سنگریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں‘‘

حیرتوں میں ہے یہاں گُم دیدۂ تصویرِ دست
لب بہ خاموشِ صدا ہے عالَمِ تقریرِ دست
کاسہ روؤں کو یہاں ہے خجلتِ تقصیرِ دست
’’بے نواؤں کی نگاہیں ہیں کہاں تحریرِ دست
رہ گئیں جو پا کے جودِ لا یزالی ہاتھ میں‘‘

دِل گزر گاہِ جمالِ جلوۂ یکتا لکھا
اپنی اُلفت میں انہیں وارفتہ و شیدا لکھا
نطق و رمی و اتّباعِ نقشِ پا اپنا لکھا
’’کیا لکیروں میں ید اللہ خطِّ سرو آسا لکھا
راہ یوں اس راز لکھنے کی نکالی ہاتھ میں‘‘

کوۓ ویرانِ تمنّا میں صدا دیتا ہے آپ
بے نواؤں کو وہ طرزِ مدّعا دیتا ہے آپ
گمرہِ داماں تہی کو ڈھونڈتا پھرتا ہے آپ
’’جودِ شاہِ کوثر اپنے پیاسوں کا جویا ہے آپ
کیا عجب اُڑ کر جو آپ آۓ پیالی ہاتھ میں‘‘

تنگ کرتی ہیں ضروبِ عرش میداں کفر پر
ٹوٹتا ہے قہر بن کر شورِ جولاں کفر پر
اِک اشارے پر ہیں غالب اہلِ ایماں کفر پر
’’ابرِ نیساں مومنوں کو تیغِ عریاں کفر پر
جمع ہیں شانِ جمالی و جلالی ہاتھ میں‘‘

کون سی نعمت ہے جو مانگو تو وہ دیتے نہیں
پھر ، اگر یا نَے ، مگر کا حرف وہ کہتے نہیں
اللہ اللہ اللہ ایسے بادشہ دیکھے نہیں
’’مالکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں اُن کے خالی ہاتھ میں‘‘

ابرِ رحمت برسے یوں چَھم چَھم الٰہی جھوم کر
ہم پہ آۓ کیف کا عالم الٰہی جھوم کر
وجد میں مرقد سے اُٹّھیں ہم الٰہی جھوم کر
’’سایہ افگن سر پہ ہو پرچم الٰہی جھوم کر
جب لواء الحمد لے امّت کا والی ہاتھ میں‘‘

مہر اُلٹے پاؤں پلٹے مہ اشارے سے دو نیم
گویا بے جاں خشک تازہ اور وہ چشمے مستقیم
کون ہے اُن کا نظیر و ہمسر و مثل و سہیم
’’ہر خطِ کف ہے یہاں اے دستِ بیضاۓ کلیم
موجزن دریاۓ نورِ بے مثالی ہاتھ میں‘‘

قطرے میں دجلہ کی دیکھے دیدۂ بینا نمود
غرقِ حیرت ذرّے پہ ہے مہر کا حسنِ کشود
چھوڑیئے سب دیکھیئے فیضِ دوامِ بے حدود
’’وہ گراں سنگئ قدرِ مس وہ ارزانئ جود
نوعیہ بدلا کیئے سنگ و لآلی ہاتھ میں‘‘

ماہ نے اقران بخشا دیکھیئے سعدین کو
دستِ قدرت نے کیا حیران عین و غین کو
چوم کر آقا نے اپنے ہر دو نورِ عین کو
’’دستگیرِ ہر دو عالم کر دیا سبطین کو
اے میں قرباں جانِ جاں انگشت کیا لی ہاتھ میں‘‘

کیسی مشہد گاہ تھی کیسا تھا جلووں کا ورود
ٹوٹتا تھا عالمِ غَیبت کا آنکھوں سے جمود
مٹ گیا نقشِ تعیّن کھو گیا عکسِ وجود
’’آہ وہ عالم کہ آنکھیں بند اور لب پر درود
وقفِ سنگِ در جبیں روضہ کی جالی ہاتھ میں‘‘

پیشِ عارض آشناۓ معنئ قرآں رہا
عالمِ نظّارگی میں دیدۂ حیراں رہا
وہ گرفتارِ جمالِ جلوۂ یزداں رہا
’’جس نے بیعت کی بہارِ حسن پر قرباں رہا
ہیں لکیریں نقشِ تسخیرِ جمالی ہاتھ میں‘‘

بزمِ محشر میں جو ہوں وہ جلوۂ حیرت فروش
قدسیوں کے لب پہ ہوں جب زمزمے فردوس گوش
اضطرابِ شوق سے سینے میں اُٹّھے ایسا جوش
’’کاش ہو جاؤں لبِ کوثر میں یوں وارفتہ ہوش
لے کر اُس جانِ کرم کا ذیلِ عالی ہاتھ میں‘‘

ہوش و تمکیں پائیں آکر راحتِ آغوشِ وجد
ہو جنوں آمیزئ عقل و خرد مدہوشِ وجد
ہو نگاہِ لطفِ ساقی اس طرح ہمدوشِ وجد
’’آنکھ محوِ جلوۂ دیدار دل پُر جوشِ وجد
لب پہ شکرِ بخششِ ساقی پیالی ہاتھ میں‘‘

حوضِ کوثر پر جب آئیں شافعِ روزِ جزا
راہ میں پلکیں بچھاؤں دل ہو زیرِ نقشِ پا
داستانِ کیفِ راؔزی
 کیا ہو لفظوں میں ادا
’’حشر میں کیا کیا مزے وارفتگی کے لوں رضؔا
لوٹ جاؤں پا کے وہ دامانِ عالی ہاتھ میں‘‘

Menu