کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ

 کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ

تضمین نگار: علامہ سید مرغوب احمد اخترؔ الحامدی


چشم ہے یا چشمہِ فیضانِ باری واہ واہ
ہاراشارہ ہے اک اذنِ رستگاری واہ واہ
معصیت سے لطف کا پلّہ ہے بھاری واہ واہ
’’ کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ
قرض لیتی ہے گنہ پرہیزگاری واہ واہ‘‘

ہر ادا ہے مظہرِ انوارِ باری واہ واہ
اچھی اچھی، ستھری ستھری، پیاری پیاری، واہ واہ
اس سراپا پر فدا ،صورت کے واری واہ واہ
’’خامہِ قدرت کا حُسنِ دستکاری واہ واہ
کیا ہی تصویر اپنے پیارے کی سنواری واہ واہ‘‘

اس محبت، اس عنایت، اس عطا کو کیا کہیں
معصیت کوشوں کو جو آرام دیں، خود دکھ سہیں
سونے والوں کے لیے جاگا کریں، مضطر رہیں
’’اشک شب بھر انتظارِ عفوِ امت میں بہیں
میں فدا، چاند اور یوں اختر شماری واہ واہ‘‘

کوثر و تسنیم کو کردے کوئی اتنی خبر
جوش زن بحرِ عنایت ہے بعنوانِ دگر
آئیں، دل کی چھاگلیں پھر لیں، کریں ٹھنڈا جگر
’’انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں پنجابِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ‘‘

ہیں رواں نوری سفر پر نور کے عالم کے شاہ
ہیں کھڑے بہرِ سلامی صف بہ صف نوری سپاہ
نور کی دنیا کیے ہے اپنی آنکھیں فرشِ راہ
’’نور کی خیرات لینے دوڑتے ہیں مہر و ماہ
اٹھتی ہے کس شان سے گردِ سواری واہ واہ‘‘

مائل عاصی پروری پر ہے محبت کی نگاہ
جستجو میں عاصیوں کی ہے شفاعت کی نگاہ
ہے نگاہِ شافعِ محشر پہ قدرت کی نگاہ
’’مجرموں کو ڈھونڈتی پھرتی ہے رحمت کی نگاہ
طالعِ برگشتہ تیری سازگاری واہ واہ‘‘

ہے تصور میں نظر افروز منظر کی بہار
شامِ نگہت آفریں، صبحِ معطر کی بہار
عرش برکف فرش کی، دیوار کی، در کی بہار
’’ اس طرف روضے کا نور، اس سمت منبر کی بہار
بیچ میں جنت کی پیاری پیاری کیاری واہ واہ‘‘

جو تھے ناکارہ سدا کے، ہوگئے وہ کام کے
بن گئے انسانِ کامل، تھے جو انساں نام کے
مل گئے دونوں جہاں، دامن تمہارا تھام کے
’’صدقے اس انعام کے ،قربان اس اکرام کے
ہو رہی ہے دونوں عالم میں تمہاری واہ واہ‘‘

وہ رضؔا، اختؔر فدائے سرورِ ہر دوسرا
دیکھیے ان کی محبت کا مقام و مرتبہ
عشق کا معیار، یہ مقطع ہے ان کی نعت کا
’’پارہِ دل بھی نہ نکلا دل سے تحفے میں رضؔا
ان سگانِ کو سے اتنی جان پیاری واہ واہ‘‘

Menu