کلامِ رضاؔ بریلوی علیہ الرحمہ

اہلِ صراط روحِ امیں کو خبر کریں

تضمین نگار: علامہ سید مرغوب احمد اخترؔ الحامدی


ہموار آکے حُور و ملک رہ گزر کریں
ہر ہر قدم پہ بارشِ آبِ گہر کریں
آرام سے یہ ناز کے پالے سفر کریں
’’ اہلِ صراط روحِ امیں کو خبر کریں
جاتی ہے امّتِ نبوی فرش پر کریں‘‘

تسلیم ہے گناہ کئے، ہیں تو آپ کے
مانا کہ ہم ہزار بُرے، ہیں تو آپ کے
کھوٹے ہیں یا کہ ہم ہیں کھرے، ہیں تو آپ کے
’’بد ہیں تو آپ کے ہیں بھلے ہیں تو آپ کے
ٹکڑوں سے تو یہاں کے پلے رُخ کدھر کریں‘‘

ہے کون سننے والا کسے حالِ دل سُنائیں
محشر میں ہم کو پرسشِ اعمال سے بچائیں
نادم ہیں رُوسیاہ، زیادہ نہ اب لجائیں
’’سرکار ہم کمینوں کے اَطوار پر نہ جائیں
آقا حضور اپنے کرم پر نظر کریں‘‘

آہو حرم کے مجھ سے رمیدہ ہیں کس لئے
شاخیں کماں کی طرح خمیدہ ہیں کس لئے
پھولوں سے ملتفت دل و دیدہ ہیں کس لئے
’’ان کی حرم کے خار کشیدہ ہیں کس لیے
آنکھوں میں آئیں سر پہ رہیں دل میں گھر کریں‘‘

تاریک ہے حیات کی ہر راہ ، وقت ہے
اے میرے چاند! اے مرے نوشاہ، وقت ہے
مخلوق ہے ہلاکِ ستم آہ وقت ہے
’’جالوں پہ جال پڑ گئے لِلّٰہ وقت ہے
مشکل کشائی آپ کے ناخن اگر کریں‘‘

تاریکیِ گناہ ہے گم سب ہیں راستے
لمبا سفر ہے راہ میں حائل ہیں مرحلے
اے آفتابِ بدر! چمک اوجِ عرش سے
’’منزل کڑی ہے شانِ تبسم کرم کرے
تاروں کی چھاؤں نور کے تڑکے سفر کریں‘‘

اختؔر جو اُٹھ گئی مرے مرشد کی ذوالفقار
ہرگز حریف جھَیل سکیں گے نہ کوئی وار
ہے بہتری اسی میں کہ ڈھونڈیں رہِ فرار
’’کلکِ رضؔا ہے خنجرِ خوں خوار برق بار
اعدا سے کہہ دو خیر منائیں، نہ شر کریں‘‘

Menu