کلامِ سبطینؔ بریلوی علیہ الرحمہ
یہ جاتا ہے خود ہی مدینہ عموماً
تضمین نگار: علامہ مفتی اشرف رضا قادری سبطینی
بہشتِ کرم کی ڈگر ڈھونڈتی ہے
مجھے حسن کی رہگزر ڈھونڈتی ہے
کدھر کا ہوں زائر کدھر ڈھونڈتی ہے
مجھے چشم رضواں ادھر ڈھونڈتی ہے
مدینے کو میری نظر ڈھونڈتی ہے
جبینِ عقیـــدت جھکاتے ہیں زاہد
عبادت میں مشغول رہتے ہیں عابد
قسم سے چمکتے منارے ہیں شاہد
ترے شہر اقدس کی ہرایک مسجد
اذاں میں بلالی اثر ڈھونڈتی ہے
میں پرواز کیوں دوں تصور کو جبراً
یہ جاتا ہے خود ہی مدینہ عموماً
کرم جب کریں گے وہ مجھ پر خصوصاً
مری روح طیبہ کو پہونچے گی فوراً
یہ جبریل کے بال وپر ڈھونڈتی ہے
اُمیدوں کا مرکز شہِ دیں کا ہے در
تمنائیں ہوتی ہیں پوری وہیں پر
وہ آقا مرے ، میں ہوں ان کا گداگر
میں کیوں ٹھوکریں دربدر کھاؤں جاکر
مری آرزو تیرا در ڈھونڈتی ہے
نہ وہ زور بازو نہ پہلی سی جرأت
کہاں کھو گئ ہے حسینی شجاعت
کرو پیدا نسلوں میں اب عزم و ہمت
مسلمان تجھ میں اب ہندی حکومت
علی کا سا قلب و جگر ڈھونڈتی ہے
شجاعت میں اُن کا نہ ثانی نہ ہمسر
اے اشرف اڑائے وہی بابِ خیبر
اکیلے ہزاروں سے لے لے کے ٹکّر
دمِ جنگ کہتے تھے سبطینؔ حیدر
مری تیغ باطل کا سَر ڈھونڈتی ہے