خدا کے فضل سے ہم پر ہے سایہ غوثِ اعظم کا

از: مداح حبیب علامہ جمیل الرحمان قادری رضوی


خدا کے فضل سے ہم پر ہے سایہ غوثِ اعظم کا

ہمیں  دونوں  جہاں  میں  ہے سہارا غوثِ اعظم کا

بلیات و غم و اَفکار کیوں  کر گھیر سکتے ہیں

سروں پر نام لیووں  کے ہے پنجہ غوثِ اعظم کا

مُرِیْدِیْ لَا تَخَفْ کہہ کر تسلی دی غلاموں  کو

قیامت تک رہے بے خوف بندہ غوثِ اعظم کا

جو اپنے کو کہے میرا مرید وں  میں  وہ داخل ہے

یہ فرمایا ہوا ہے میرے آقا غوثِ اعظم کا

سجل ان کو دیا وہ رب نے جس میں  صاف لکھا ہے

کہ جائے خلد میں  ہر نام لیوا غوثِ اعظم کا

ہماری لاج کس کے ہاتھ ہے بغداد والے کے

مصیبت ٹال دینا کام کس کا غوثِ اعظم کا

جہازِ تاجراں  گرداب سے فوراً نکل آیا

وظیفہ جب انہوں  نے پڑھ لیا یا غوثِ اعظم کا

گئے اِک وقت میں  ستر مریدوں  کے یہاں  آقا

سمجھ میں  آ نہیں  سکتا مُعَمَّا غوثِ اعظم کا

شفا پاتے ہیں  صدہا جاں  بلب اَمراضِ مُہْلِک سے

عجب دارُالشفا ہے آستانہ غوثِ اعظم کا

نہ کیونکر اَولیا اس آستانے کے بنیں  منگتا

کہ اِقلیمِ وِلایت پر ہے قبضہ غوثِ اعظم کا

بلا کر کافروں  کو دیتے ہیں  اَبدال کا رُتبہ

ہمیشہ جوش پر رہتا ہے دریا غوثِ اعظم کا

بِلَادُ اللہِ مُلْکِیْ  تَحْتَ حُکْمِی سے یہ ظاہر ہے

کہ عالم میں  ہر اِک شے پر ہے قبضہ غوثِ اعظم کا

وَوَلَّانِیْ عَلَی الْاَقْطَابِ جَمْعًا صاف کہتا ہے

کہ ہر اِک قطب ہے عالم میں  چیلا غوثِ اعظم کا

فَحُکْمِیْ نَافِذٌ فِیْ کُلِّ حَالٍ سے ہوا ظاہر

تصرف اِنس و جن سب پر ہے آقا غوثِ اعظم کا

سلاطینِ جہاں  کیونکر نہ ان کے رُعب سے کانپیں

نہ لایا شیر کو خطرے میں  ُکتا غوثِ اعظم کا

ہوئی اِک دیو سے لڑکی رِہا اس نام لیوا کی

پڑھا جنگل میں  جب اس نے وَظیفہ غوثِ اعظم کا

ہوا موقوف فوراً ہی برسنا اہل مجلس پر

جو پایا اَبرِ باراں  نے اِشارہ غوثِ اعظم کا

نیا ہفتہ نیا دن سال نو جس وقت آتا ہے

ہر اِک پہلے بجا لاتا ہے مجرا غوثِ اعظم کا

جو حق چاہے وہ یہ چاہیں  جو یہ چاہیں  وہ حق چاہے

تو مٹ سکتا ہے پھر کس طرح چاہا غوثِ اعظم کا

فقیہوں  کے دِلوں  سے دھودِیا ان کے سوالوں  کو

دِلوں  پر ہے بنی آدم کے قبضہ غوثِ اعظم کا

وہ کہہ کر قُمْ بِاِذْنِ اللہ جلا  دیتے  ہیں  مردوں  کو

بہت مشہور ہے اِحیائے موتی غوثِ اعظم کا

جلایا اُستخوانِ مرغ کو دَست کرم رکھ کر

بیاں  کیا ہوسکے اِحیائے موتی غوثِ اعظم کا

اِلیَّ  یَامُبَارَک  آتی  تھی  آواز  خلوت  میں

یہیں  سے جان لے منکر تو رُتبہ غوثِ اعظم کا

فرشتے مدرسے تک ساتھ پہنچانے کو جاتے تھے

یہ دَربارِ الٰہی میں  ہے رُتبہ غوثِ اعظم کا

سفر سے واپسی میں  دِین اَقدس کو کیا زِندہ

مُحِیُّ الدِّیں  ہوا  یوں   نام  والا  غوثِ  اعظم  کا

جو فرمایا کہ دَوشِ اِولیا پر ہے قدم میرا

لیا سر کو جھکا کر سب نے تلوا غوثِ اعظم کا

دَمِ فرماں  خراساں  میں  معین الدین چشتی نے

جھکا کر سر لیا آنکھوں  پہ تلوا غوثِ اعظم کا

نہ کیونکر سلطنت دونوں  جہاں  کی ان کو حاصل ہو

سروں  پر اپنے لیتے ہیں  جو تلوا غوثِ اعظم کا

لعاب اپنا چٹایا احمدِ مختار نے ان کو

تو پھر کیسے نہ ہوتا بول بالا غوثِ اعظم کا

رَسُوْلُ اللہ نے  خِلْعَت  پنہایا   بر  سرِ  مجلس

بجے کیوں  کر نہ پھر عالم میں  ڈَنکا غوثِ اعظم کا

محرر چار سو(400) مجلس میں  حاضر ہو کے لکھتے تھے

ہوا کرتا تھا جو اِرشادِ والا غوثِ اعظم کا

اگرچہ مرغ سب کے بول کر خاموش ہوتے ہیں

مگر ہاں  مرغ بولے گا ہمیشہ غوثِ اعظم کا

کھلے ہفتاد دَر اِک آن میں  علمِ لدنی کے

خزینہ بن گیا علموں  کا سینہ غوثِ اعظم کا

ہمارا ظاہر و باطن ہے ان کے آگے آئینہ

کسی شے سے نہیں  عالم میں  پردہ غوثِ اعظم کا

پڑھی لَاحَوْل اورشیطاں کے دھوکے کو کیا غارَت

علوم و فضل سے وہ نور چمکا غوثِ اعظم کا

قصیدے میں جنابِ غوث کے دیکھونَظَرْتُ کو

تو سوجھے دُور کی ظاہر ہو رُتبہ غوثِ اعظم کا

رہے پابند اَحکامِ شریعت اِبتداء ہی سے

نہ چھوٹا شیر خواری میں  بھی روزہ غوثِ اعظم کا

ہے جب عرشِ الٰہی پہلی منزل ان کے زینے کی

تو پھر کس کی سمجھ میں  آئے رُتبہ غوثِ اعظم کا

محمد کا رسولوں  میں  ہے جیسے مرتبہ اعلیٰ

ہے اَفضل اَولیا میں  یوں  ہی رُتبہ غوثِ اعظم کا

عطا کی ہے بلندی حق نے اہل اللہکے جھنڈوں  کو

مگر سب سے کیا اُونچا پھریرا غوثِ اعظم کا

اسی باعث سے ہیں  قبروں  میں  اپنی اَولیا زندہ

حیاتِ دائمی پاتا ہے کشتہ غوثِ اعظم کا

مری جاں  کندنی کا وقت راحت سے بدل جائے

سرِبالیں  اگر ہوجائے پھیرا غوثِ اعظم کا

رہائی مل گئی اس کو عذابِ قبر و محشر سے

یہاں  پر مل گیا جس کو وسیلہ غوثِ اعظم کا

یہ سنتے ہیں  نکیرین اس پہ کچھ سختی نہیں  کرتے

لکھا ہوتا ہے جس کے دل پہ طغرا غوثِ اعظم کا

عزیزو کرچکو تیار جب میرے جنازے کو

تو لکھ دینا کفن پر نامِ والا غوثِ اعظم کا

لحد میں  جب فرشتے مجھ سے پوچھیں  گے تو کہہ دوں  گا

طریقہ قادری ہوں  نام لیوا غوثِ اعظم کا

ندا دے گا منادی حشر میں  یوں  قادریوں  کو

کدھر ہیں  قادری کرلیں  نظارہ غوثِ اعظم کا

چلا جائے بلا خوف و خطر فردوسِ اَعلیٰ میں

فقط اِک شرط ہے ہو نام لیوا غوثِ اعظم کا

فرشتوں  روکتے کیوں  ہو مجھے جنت میں  جانے سے

یہ دیکھو ہاتھ میں  دامن ہے کس کا غوثِ اعظم کا

جنابِ غوث دولہا اور براتی اَولیا ہوں  گے

مزہ دِکھلائے گا محشر میں  سہرا غوثِ اعظم کا

یہ کیسی روشنی پھیلی ہے میدانِ قیامت میں

نقاب اُٹھا ہوا ہے آج کس کا غوثِ اعظم کا

یہ محشر میں  کھلے ہیں  گیسوئے عنبر فَشاں  کس کے

برستا ہے کرم کا کس کے جھالا غوثِ اعظم کا

یہ قیدی چھٹ رہے ہیں  اس لیے میدانِ محشر میں

خدا خود بانٹتا ہے آج صدقہ غوثِ اعظم کا

گزاری کھیل میں  کل اَب ہوئی اَعمال کی پرسش

 مگر کام آگیا اس دَم وسیلہ غوثِ اعظم کا

کبھی قدموں  پہ لوٹوں  گا کبھی دامن پہ مچلوں  گا

بتادوں  گا کہ یوں  چھٹتا ہے بندہ غوثِ اعظم کا

ٹھکانا اس کے نیچے یا خدا مل جائے ہم کو بھی

کھڑا ہو حشر میں  جس وقت جھنڈا غوثِ اعظم کا

خداوندا دُعا مقبول کر ہم رُوسیاہوں  کی

گناہوں  کو ہمارے بخش صدقہ غوثِ اعظم کا

مری پھوٹی ہوئی تقدیر کی قسمت چمک جائے

بنائے مجھ کو سگ اپنا جو کتا غوثِ اعظم کا

لحد میں  بھی کھلی ہیں  اس لیے عشاق کی آنکھیں

کہ ہوجائے یہیں  شاید نظارہ غوثِ اعظم کا

صدائے صور سن کر قبر سے اُٹھتے ہی پوچھوں  گا

کہ بتلاؤ کدھر ہے آستانہ غوثِ اعظم کا

کچھ اِک ہم ہی نہیں  ہیں  آستانِ پاک کے کتے

زمانہ پل رہا ہے کھا کے ٹکڑا غوثِ اعظم کا

نبی نورِ الٰہی اور یہ نورِ مُصطفائی ہیں

تو پھر نوری نہ ہو کیونکر گھرانا غوثِ اعظم کا

نبی کے نور کو گر دیکھنا چاہے انہیں  دیکھے

سراپا نورِ اَحمد ہے سراپا غوثِ اعظم کا

رَسُوْلُ اللہ کا دشمن ہے غوثِ پاک کا دشمن

رَسُوْلُ اللہ  کا  پیارا  ہے  پیارا  غوثِ  اعظم  کا

مخالف کیا کرے میرا کہ ہے بے حدکرم مجھ پر

خدا  کا   رَحْمَۃٌ  لِّلْعٰلَمِیں  کا  غوثِ  اعظم  کا

جمیلؔ قادری سو جاں  سے ہو قربان مرشد پر

بنایا جس نے تجھ جیسے کو بندہ غوثِ اعظم کا

Menu