کیا لکھوں عز و علائے غوثِ پاک
از: مداح حبیب علامہ جمیل الرحمان قادری رضوی
کیا لکھوں عز و علائے غوثِ پاک
ہو نہیں سکتی ثنائے غوثِ پاک
شاہ کردے چور کو اِک آن میں
میں فدا تجھ پر عطائے غوثِ پاک
اس کے قدموں میں سلاطیں سر جھکائیں
اپنے سر پر لے جو پائے غوثِ پاک
سب کے پھیلے ہاتھ اس کے سامنے
ہوگئی جس پر عطائے غوثِ پاک
یاخدا بہر شہید کربلا
ہو ترقی پر وِلائے غوثِ پاک
کیا عجب ہم بیکسوں کو خواب میں
چہرۂ اَنور دِکھائے غوثِ پاک
قبر سے اُٹھوں تو اے ربِّ کریم
میرا سر ہو اور پائے غوثِ پاک
غوثِ اعظم ہیں غلاموں کے لیے
ہم بھکاری ہیں برائے غوثِ پاک
کاش ہم سے رُوسیاہوں کو کبھی
اپنے روضہ پہ بلائے غوثِ پاک
کہیے اُس کو مہر محشر کیا ستائے
لَا تَخَف جس کو سنائے غوثِ پاک
دیکھنا ہم قادریوں پر کرم
حشر میں جس وقت آئے غوثِ پاک
منکر بددیں کو دوزخ ہو نصیب
قادری زیر لوائے غوثِ پاک
قادری دولہا کا دامن حشر میں
ہاتھ میں ہو اے خدائے غوثِ پاک
ناز ہے گر زاہدوں کو زہد پر
ہم کو کافی ہے دُعائے غوثِ پاک
نام لیووں کی تمنا ہے یہی
تیرے در پر موت آئے غوثِ پاک
پوچھتے کیا ہو فرشتو قبر میں
مجھ کو کہتے ہیں گدائے غوثِ پاک
ہم پہ برسادے خدا کے واسطے
اِک بھرن اَبر سخائے غوثِ پاک
کھول دے لِلّٰہِ مشکل کی گرہ
میں فدا بند قبائے غوثِ پاک
کس طرح وہ راہ بھٹکے دہر میں
راہِ حق جس کو دکھائے غوثِ پاک
کیوں نہ ہو محبوبِ سبحانی لقب
ہے پسند حق اَدائے غوثِ پاک
اس رضا کا ہے جمیلؔ قادری
ہے رضا جس کی رضائے غوث پاک