اُٹھے چل دییے
داماد حضورتاج الشریعہ ، نازش علم وفن ، پیکر اخلاص ، حضرت علامہ مفتی شعیب رضانعیمی ، کی رحلت پر .. اشکہاے فرقت ….
از: محمد سلمان رضا فریدی صدیقی مصباحی
توڑ کر وصل کےدائرے چلدییے
بزم دنیاسےوہ بس اٹھے چلدییے
کہنے سننےکی حسرت جگر میں رہی
آہ !! وہ بےکہے ، بے سنے چلدییے
اہلسنت پہ، یہ سن کے بجلی گری
اب شعیبِ نعیمی ، گیے چلدییے
انکی یادیں رلاتی رہیں گی ہمیں
وہ ہمیں بس ذرا سا ملے چلدییے
انکے سینے میں تھا ایک بےباک دل
مشکلوں میں نہ پیچھے ہٹے،چلدییے
عظمت مصطفٰی کے محافظ تھے وہ
وہ نہ باطل سے ہرگز دبـے ، چلدییے
موجزن انکے اندر تھا عشق نبی
رات دن عشق میں وہ جلے چلدییے
بـے رکے بـے تھکے، راہ اخلاص پر
عمر بھر کام حق کے کیے، چلدییے
جس سے چمکے گی راہ ہنر اے شعیب
کرکے روشن ، تم ایسے “دییے”چلدیے
خاندان رضا ، سارا غمگین ہے
مختصر اُس چمن میں رہے چلدییے
قلب تاج الشریعہ ہوا غمزدہ
حسرتیں آپ انکی لیے چلدییے
سونا سونا ہےگلزارِعسجد میاں
آہ !! تم اسکی رونق بنے ، چلدییے
غم سے مولانا عاشق ہوے اشکبار
تم نگاہ کرم ڈال کے چلدییے
مسکراتی جبیں ، زندہ دل ، خوش ادا
آپ سبکے دلوں کو لیـے چلدییے
سرجھکاے ہیں رب کی مشیت پہ ہم
جتنالکّھا تھا ، اتنا جیے چلدییے
خوش نصیبی سے موت آئ رمضان میں
خلد ،وہ مسکراتے ہوے چلدییے
قبر میں ان پہ ہوگا نبی کا کرم
ذکر آقا ، وہ کرتے ہوے چلدییے
انکو حاصل رہیں ، قبرکی راحتیں
رب انھیں تاابد خوش رکھے، چلدییے
بارش ابررحمت ہو ان پر سدا
نور سے قبر انکی بھرے، چلدییے
اب کبھی دید انکی نہ ہوپاے گی
اُف ،، فریدی یہ کیسے لکھے،، چلدییے