وجہ تسمیہ:
اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے۔ محرم کو محرم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں جنگ و قتال حرام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور اس مہینہ میں عاشورہ کا دن بہت معظم ہے یعنی دسویں محرم کا دن۔
( فضائل الایام والشہور صفحہ ۲۵۱)
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ اَرۡبَعَۃٌ حُرُمٌ ؕ(التوبہ:۳۶)
ترجمہ:بیشک مہینوں کی گنتی اللّٰہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں (۱) اللّٰہ کی کتاب میں (۲) جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں (۳)(کنز الایمان)
(۱) یہاں یہ بیان فرمایاگیا کہ احکامِ شرع کی بنا قمری مہینوں پر ہے جن کا حساب چاند سے ہے ۔
(۲) یہاں اللہ کی کتاب سے یا لوحِ محفوظ مراد ہے یا قرآن یا وہ حکم جو اس نے اپنے بندوں پر لازم کیا ۔
(۳) تین متّصِل ذوالقعدہ و ذوالحِجّہ ، محرّم اور ایک جدا رَجَب ۔ عرب لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کی تعظیم کرتے تھے اور ان میں قتال حرام جانتے تھے ۔ اسلام میں ان مہینوں کی حرمت و عظمت اور زیادہ کی گئی ۔
حضرتِ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:’’رمضان کے بعدمحرم کا روزہ افضل ہے اورفر ض کے بعد افضل نماز صلو ۃ اللیل(یعنی رات کے نوافل)ہے۔‘‘(صحیح مسلم،ص۸۹۱،حدیث۱۱۶۳)
حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا فرمانِ ہے :’’ محرم کے ہر دن کا روزہ ایک مہینہ کے روزوں کے برابر ہے۔‘‘
دعائے محرم الحرام
پہلی محرم الحرام کو جو یہ دعا پڑھے تو شیطانِ لعین سے محفوظ رہے اور سارا سال دو فرشتے اس کی حفاظت پر مقرر ہوں گے۔
اَللّٰہُمَّ اَنْتَ الْاَبَدِیُّ الْقَدِیْمُ وَھٰذِہٖ سَنَۃٌ جَدِیْدَۃٌ اَسْئَلُکَ فِیْہَا الْعِصْمَۃَ مِنَ الشَّیْطٰنِ وَاَوْلِیَائِہٖ وَالْعَوْنَ عَلٰی ھٰذِہِ النَّفْسِ الْاَمَّارَۃِ بِالسُّوْءِ وَالْاِشْتِغَالَ بِمَا یُقَرِّ بُنِیْاِلَیْکَ یَا کَرِیْمُ۔
(فضائل الایام الشہور صفحہ ۲۶۷، بحوالہ نزہۃ المجالس)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اگر مومن اللہ کی راہ میں روئے زمین پر مال خرچ کرے تو اسے (اس قدر) بزرگی حاصل نہ ہوگی جس قدر کوئی عاشورے کے روز روزہ رکھے۔ اس کے لیے جنت کے آٹھ دروازے کھل جائیں، وہ جس دروازے سے داخل ہونا پسند کرے گا داخل ہوگا۔
(لطائف اشرفی، صفحہ ۳۳۶)
ماہ محرم الحرام کی عبادات
محرم کی پہلی رات کے نوافل:
ماہِ محرم کی پہلی شب میں چھ رکعات تین سلام کے ساتھ ادا کرے۔ اس کی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورۃ اخلاص اور تین بار سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسٌ پڑھے۔ اس کا بہت زیادہ ثواب ہے۔ پھر محرم کے مہینے کی ہر شب سوبار پڑھے:
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ۔ لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ حَیٌّ الَّا یَمُوْتُ اَبْدًا ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ اَللّٰہُمَ لَا مَانِعُ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذُالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُ.
ترجمہ:سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ملک اُسی کا ہے، تعریف اُسی کے لیے ہے۔ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ وہ زندہ ہے اور نہیں مرے گا۔ صاحبِ جلا ل اور اکرام ہے۔ اے اللہ اس چیز کا جو تونے دی کوئی مانع نہیں ہے اور جس چیز کو تونے روک دیا اسے کوئی نہیں دے سکتا اور صاحب دولت کو تجھ سے بےنیاز ہونا کوئی نفع نہیں دیتا۔
( لطائف اشرفی، صفحہ ۳۳۲)
تمام سال کی حفاظت اور برکت:
یکم محرم شریف کے دن دو رکعت نماز نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین بار سورۃ الاخلاص پڑھے۔ سلام کے بعد ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھے:
اَللّٰہُمَّ اَنْتَ اللّٰہُ الْاَبَدُ الْقَدِیْمُ ھٰذِہٖ سَنَہٌ جَدِیْدَۃٌ اَسْئَلُکَ فِیْہَا الْعِصْمَۃَ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ وَالْاَمَانَ مِنَ السُّلْطَانِ الْجَابِرِ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ ذِیْ شَرٍّ وَّمِنَ الْبَلَاءِ وَالْاٰفَاتِ وَاَسْئَلُکَ الْعَوْنَ وَالْعَدْلَ عَلٰی ھٰذِہِ النَّفْسِ الْاَمَّارَۃِ بِالسُّوْءِ وَالْاِشْتِغَالِ بِمَا یُقَرِّبُنِیْ اِلَیْکَ یَا بَرُّ یَا رَءُوْفُ یَا رَحِیْمُ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ.
جو شخص اس نماز کو پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کے اوپر دو فرشتے مقرر فرمادے گا تاکہ وہ اس کے کاروبار میں اس کی مدد کریں۔ اور شیطان لعین کہتا ہے کہ افسوس میں اس شخص سے تمام سال ناامید ہوا۔
( فضائل الایام والشہور، صفحہ ۲۶۸، ۲۶۹)
جو شخص یکم محرم الحرام کی رات میں چار رکعات نماز پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد پچاس ۵۰ مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے تو اللہ عزوجل اس کے پچاس برس گزشتہ اور پچاس سال آئندہ کے گناہ بخش دیتا ہے۔ اور اس کے لئے ملاءِ اعلیٰ میں ایک محل تیار کرتا ہے۔
یکم محرم الحرام کی رات دو۲ رکعات نفل قبر کی روشنی کے واسطے پڑھے جاتے ہیں جن کی ترکیب یہ ہے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے۔ جو آدمی اس رات میں یہ نماز پڑھے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت تک ا س کی قبر روشن رکھے گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جو شخص عاشورے کے دن روزہ رکھے پس شب و روز کی ساعتوں میں ہر ساعت اللہ تعالیٰ اُن ساعتوں کی ہر ساعت کے بدلے اس پر سات لاکھ فرشتے نازل فرمائے گا جو قیامت تک دعا اور استغفار کریں گے اور بے شک اللہ تعالیٰ کی آٹھ جنتیں ہیں، اللہ تعالیٰ ہر بہشت میں ساٹھ لاکھ فرشتے مقرر کرے گا کہ (عاشورے کے روزے دار کے لیے) روزہ رکھنے کے دن سے اس بندے اور بندی کی موت تک محلات اور شہر تعمیر کرے، درخت اُگائیں، نہریں جاری کریں۔
(لطائف اشرفی، صفحہ ۳۳۶)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اس کا اجر توریت، انجیل، زبور اور قرآن میں جتنے حرف ہیں ان کی تعداد کے مطابق ہر حرف پر بیس نیکیاں ہونگی۔ جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اسے ایک ہزار شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
(لطائف اشرفی، صفحہ ۳۳۶)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا خاموشی اور سکوت میں وہ روزہ اس کے اُس سال کے گناہوں اور خطاؤں کا کفارہ ہوگا، اور جو شخص کامل قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ دو رکعت نماز خضوع سے پڑھے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس بندے کی جزا کیا ہونی چاہیے پس فرشتے عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ تو ہی خوب جانتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کے حساب میں ہزار ہزار نیکیاں لکھی جائیں اور ہزار ہزار بدی مٹادی جائیں۔ اس کارتبہ ہزار ہزار درجے بلند کیا جائے۔ ہم نے اپنی بزرگی کے ہزار ہزار دروازے کھول دیے ہیں جو اس پر کبھی بند نہ کیے جائیں گے۔(لطائف اشرفی، جلد دوم، صفحہ ۳۳۶)
یوم عاشورہ کی اہمیت اور فضائل
عاشورہ کی وجہ تسمیہ:
عاشورہ کی وجہ تسمیہ میں علما ء کا اختلاف ہے اس کی وجہ مختلف طور پر بیان کی گئی ہے، اکثر علماء کا قول ہے کہ چونکہ یہ محرم کا دسواں دن ہوتا ہے اس لیے اس کو عاشورہ کہا گیا، بعض کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بزرگیاں دنوں کے اعتبار سے امت محمدیہ کو عطا فرمائی ہیں اس میں یہ دن دسویں بزرگی ہے اسی مناسبت سے اس کو عاشورہ کہتے ہیں…بعض علماء کا کہنا کہ یوم عاشورہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اس روز دس پیغمبروں پر ایک ایک عنایت خاص فر مائی (کل دس عنایتیں ہوئیں)۔
(۱) اس روز حضرت آدم علیہ السلام کی تو بہ قبول فرمائی۔
(۲) حضرت ادریس علیہ السلام کو مقام رفیع پراٹھا یا۔
(۳) حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اسی روز کوہ جو دی پر ٹھہری۔
(۴) اسی روز حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اوراسی روز اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا خلیل بنایا، اسی دن نمرود کی آگ سے ان کو بچایا۔
(۵) اسی روز حضرت داؤد علیہ السلام کی تو بہ قبول فرمائی اور اسی دن حضرت سلیمان کو (چھنی ہوئی سلطنت واپس ملی)۔
(۶) اسی روز حضرت ایوب علیہ السلام کا ابتلا (دکھ درد) ختم ہوا۔
(۷) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو (رود نیل میں) غرق ہو نے سے بچایا اور فر عون کو غرق کر دیا۔
(۸) اسی روز حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے رہائی ملی۔
(۸ ) اسی روز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گی۔
(۱۰) اسی دن سرور کا ئنات رسول خداﷺکی پیدائش ہو ئی۔
(نوٹ: اس میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور علماء کے نزدیک حضورﷺ کی پیدائش۱۲؍ربیع النور کو ہوئی)۔
( غنیہ الطالبین، صفحہ ۴۶۶)
ممنوعات
عاشورہ کے دن سیاہ کپڑے پہننا، سینہ کوبی کرنا، کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا، نوحہ کرنا، پیٹنا، چھری چاقو سے بدن زخمی کرنا جیسا کہ رافضیوں کا طریقہ ہے حرام اور گناہ ہے اِیسے افعال شنیعہ سے اجتناب ِ کلی کرنا چاہیے۔ایسے افعال پر سخت ترین وعیدیں آئی ہیں جن میں سے چند تحریر کی جاتی ہیں:
حدیث۔۱
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کہ ہمارے طریقے پر وہ نہیں ہے جو رخساروں کو مارے اور گریبان پھاڑے اور پکارے جاہلیت کا پکارنا۔
( فضائل الایام والشہور، صفحہ ۲۶۴، بحوالہ مشکوۃ صفحہ ۱۵۰)
حدیث۔۲
سیّدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بے ہوشی طاری ہوگئی پس آئی اس کی عورت جس کی کنیت ام عبداللہ تھی اس حال میں رونے کے ساتھ آواز کرتی تھی۔ جب ان کو افاقہ ہوا تو کہا کیا تو نہیں جانتی ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اس کو خبر دے رہے تھے کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: میں بیزار ہوں اس شخص سے جو بال منڈائے اور بلند آواز سے روئے اور کپڑے پھاڑے۔
حدیث۔۳
سیّدنا حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا چار خصلتیں میری امت میں جاہلیت کے کام سے پائی جاتی ہیں: فخر کرنا، اپنے حسب میں طعن کرنا، عیب نکالنا لوگوں کے نسب میں، بارش طلب کرنا ستاروں سے اور ماتم میں نوحہ کرنا۔ اور فرمایا نوحہ کرنے والی مرنے سے قبل توبہ نہ کرے تو قیامت کے روز کھڑی کی جائے گی اس حال میں کہ گندھک کی قمیص اس پر ہوگی اور ایک قمیص خارش والی ہوگی۔
ایصالِ ثواب برائے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
امیر المومنین امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایصال ثواب کے لیے دورکعات نماز ادا کرے اور دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے بعد دس بار سورۂ اخلاص پڑھے۔ سلام کے بعد نو ۹ نو ۹ بار آیت الکرسی اور درود شریف پڑھے۔ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت امیر المومنین (یعنی اما م حسین)رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس روز دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔ اس کی پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد اَلَمْ نَشْرَحْ (یعنی سورۂ الم نشرح) اور دوسری میں اِذَاجَآءَ(یعنی سورۂ نصر) پچیس پچیس بار پڑھے۔
( لطائف اشرفی، صفحہ ۳۳۸)
ہر حاجت پوری(ان شاء اللہ)
جو شخص عاشورے کے روز حاجت کے لیے یہ دعا مانگے اس کی حاجت پوری ہوگی۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اِلٰہِیْ بِحُرْمَتِ الْحُسَیْنِ وَ اَخِیْہِ وَ اُمِّہِ وَ اَبِیْہِ وَجَدِّہِ وَ بَنِیْہِ فَرِّجْ عَمَّا اَنَا فِیْہِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ اَجْمَعِیْنَ
ترجمہ: اللہ کے نام سے شروع بڑا مہربان نہایت رحم والا۔
اے اللہ! حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کے بھائی، اُن کی والدہ، اُن کے والد اور اُن کے نانا کی حرمت کے واسطے سے میں جس حاجت میں ہوں وہ مجھ پر کھول دے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بہترین خلائق محمدﷺ پر اورآپﷺ کی تمام آل پر رحمت فرما۔
( لطائف اشرفی،جلد دوم، صفحہ ۳۳۸)