اسلامی سال کے دسویں مہینے کا نام شوال المکرم ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ”شَول“ سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا)ہے۔ اس مہینہ میں عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کے لیے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے۔ اس لیے اس کا نام ’’شوال‘‘ رکھا گیا۔
شوال المکرم کے نوافل:
ماہ شوال میں کسی بھی رات یا دن کو آٹھ رکعات نفل پڑھے(دو۲، دو۲ کرکے یا ایک ہی سلام کے ساتھ بھی آٹھوں رکعات ادا کی جاسکتی ہیں) اور ہر ایک رکعت میں الحمد شریف کے بعدقُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ پچیس مرتبہ پڑھے پھر سلام پھیر کر ستر(۷۰)دفعہ تیسرا کلمہ (سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُوَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِااللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم) اور ستر(۷۰)دفعہ درود شریف پڑھنے کے نتیجے میں یہ انعام ملے گا کہ اگر اس ماہ میں انتقال کرگیا تواللہ تعالیٰ اسے شہید کا درجہ عطا فرمائے گا۔( لطائفِ اشرفی جلد دوم، صفحہ ۳۵۱)
شوال کے چھ(۶)نفلی روزے رکھنے کے دوران انہی راتوں میں سو(۱۰۰)رکعات نماز دو(۲)،دو(۲) رکعات کرکے اس طرح ادا کریں کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص دس مرتبہ پڑھیں۔( لطائفِ اشرفی جلد دوم، صفحہ ۳۵۱)
شوال المکرم اور فرامین مصطفیٰ:
یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے(یعنی حج کی نیت سے آغاز ِسفر) اسے’’شَہْرُالْفِطْر ‘‘ بھی کہتے ہیں اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشش کا مژدہ سناتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
’’اِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِہِمْ یَعْنِیْ یَوْمَ فِطْرِہِمْ بَاہـٰی بِہِمْ مَلَائِکَتَہٗ فَقَالَ مَاجَزَآءُ اَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَہٗ قَالُوْرَبَّنَا جَزَآءُ ہٗ اَنْ یُّوَفّٰی اَجْرُہٗ قَالَ مَلَائِکَتِیْ عَبِیْدِیْ وَاِمَائِیْ قَضَوْ فَرِیْضَتِیْ عَلَیْہِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ اِلَی الدُّعَآئِ وَ عِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ وَکَرَمِیْ وَ عُلُوِّیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ لَاُجِیْبَنَّہُمْ فَیَقُوْلُ ارْجِعُوْا قَدْغَفَرْتُ لَکُمْ وَ بدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّہُمْ۔‘‘( رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔/ مشکوٰۃ صفحہ ۱۸۳)جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کردیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کے لیے پکارتے ہوئے۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہِ رمضان میں روزے رکھے، عید الفطرکی رات میں پورا پورا اجر عطا فرمادیتا ہے اورعید کی صبح فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور ہر گلی، کوچہ اور بازار میں اعلان کردو(اس آواز کو جن و انس کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے) کہ محمد ﷺ کے امتیوں! اپنے رب کی طرف بڑھو وہ تمہاری تھوڑی نماز کو قبول کرکے بڑا اجر عطا فرماتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے پھر جب لوگ عید گاہ روانہ ہوجاتے ہیں اور وہاں نماز سے فارغ ہوکر دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا اور کسی گناہ کوبغیرمعاف کئے نہیں چھوڑتا اور لوگ اپنے گھروں کو ’’مغفور‘‘ ہو کر لوٹتے ہیں۔( غنیۃ الطالبین صفحہ ۴۰۵)
حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہر عید کے دن ابلیس چلا کر روتا ہے۔ دوسرے شیاطین اس کے پاس جمع ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں: اے ہمارے سردار آپ کیوں ناراض ہیں؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت محمدمصطفی ﷺ کی امت کو معاف کردیا۔ اب تم پر لازم ہے کہ انہیں شہوات و لذّات میں ڈال کر غافل کردو۔( مکاشفۃ القلوب صفحہ۶۹۳)
جو عیدین کی راتوں میں قیام کرے۔ اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مرجائیں گے۔(یعنی قیامت کے دن)۔( مکاشفۃ القلوب صفحہ ۶۹۳)
جوپانچ راتوں میں شب بیداری کرے اس کے لیے جنت واجب ہے۔ ان میں سے ایک عید الفطر کی رات ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کی جانے والی دعائیں رد نہیں ہوتیں۔ اول: جمعہ کی شب۔ دوم:رجب کی پہلی رات۔ سوم: شعبان کی پندرہویں رات۔ چہارم: عید الفطر کی رات۔ پنجم: عید الاضحی کی رات۔‘‘ (شعب الایمان للبہیقی جلد ۳، صفحہ ۳۴۲۔ مصنف عبدالرزاق، جلد ۳، صفحہ ۳۱۷)
حدیث شریف میں ہے کہ جو مسلمان شوال کی پہلی رات یا دن میں نماز عید کے بعد چار رکعت نفل اپنے گھر میں پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌاکیس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہشت کے آٹھوں دروازے کھول دے گا۔ اور دوزخ کے ساتوں دروازے اس پر بند کردے گا اور وہ اس وقت تک نہ مرے گا کہ جب تک اپنا مکان جنت میں نہ دیکھ لے گا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ۴۴۸)
شوال المکرم اور نفلی روزے
شوال کے چھ روزے:
شوال میں (عید کے دوسرے دن سے )چھ دن روزے رکھنا بڑا ثواب ہے جس مسلمان نے رمضان المبارک اور ماہِ شوال میں چھ۶ روزے رکھے تو اس نے گویا سارے سال کے روزے رکھے یعنی پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے۔ سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور رحمۃ اللعالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ اَتْبَعَہٗ سِتًّا مِّنْ شَوَّالِ کَانَ کَصِیَامِ الدَّہْرِ( رواہ البخاری و مسلم۔/ مشکوٰۃ صفحہ ۱۷۹) جس آدمی نے رمضان شریف کے روزے رکھے۔ اور پھر ان کے ساتھ چھ روزے شوال کے ملائے تو اس نے گویا تمام عمر روزے رکھے۔
نوٹ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’تمام عمر روزے رکھنے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ رمضان شریف کے علاوہ ہر ماہِ شوال میں چھ ۶ روزے رکھے جائیں تو تمام عمر روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔ اگر اس نے صرف ایک ہی سال یہ روزے رکھے تو سال کے روزوں کا ثواب ملے گا۔ پھر یہ روزے اکٹھے رکھے جائیں یا الگ الگ،ہر طرح جائز ہیں مگر بہتر یہ ہے کہ ان کو متفرق طور پر رکھا جائے۔ یہی حنفی مذہب ہے۔( فضائل الایام والشہور صفحہ ۴۴۷بحوالہ لمعات حاشیہ مشکوۃ صفحہ ۱۷۹)
شوال میں ایامِ بیض کے روزے:
علاوہ ازیں ماہِ شوال میں متذکرہ چھ۶ روزوں کے علاوہ ۱۳، ۱۴، ۱۵ چاند کی تاریخوں (ایامِ بیض)میں اسی طرح روزے رکھے جاسکتے ہیں جیسا کہ دیگر مہینوں میں انہی ایام میں رکھتے ہیں۔اس حوالے سے صحاح ستّہ میں کئی روایات ملتی ہیں۔ (بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ شریف)
شوال المکرم کے فضائل و معمولات:
اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے جس کو ’’یوم الرحمۃ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے۔ اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا فرمائی اور اسی روز اللہ تبارک و تعالیٰ نے درختِ طوبیٰ پیدا کیا۔ اور اسی دن کو اللہ عزوجل نے سیدنا حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وحی کے لیے منتخب فرمایا۔ اور اسی دن میں فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی تھی۔ (فضائل ایام و الشہور، صفحہ ۴۴۳،غنیہ الطالبین صفحہ۴۰۵، مکاشفۃ القلوب صفحہ۶۹۳)
اسی مہینہ کی چوتھی تاریخ کو سید العالمین رحمۃ اللعالمین ﷺ نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کے لیے نکلے تھے اور اسی ماہ کی پندرہویں تاریخ کو اُحد کی لڑائی ہوئی۔ جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے اور اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخرِ ماہ تک جتنے دن ہیں وہ قوم عاد کے لیے منحوس دن تھے جن میں اللہ جل شانہٗ نے قوم عاد کو ہلاک فرمایا تھا۔ (فضائل ایام والشہور صفحہ ۴۴۴، بحوالہ عجائب المخلوقات صفحہ ۴۶)
یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے(یعنی حج کی نیت سے آغاز ِسفر)۔
شبِ عید الفطر یعنی چاند رات کے اعمال:
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اس ماہ مبارک کی چاند رات کو لیلۃ الجائزہ یعنی انعام والی رات بھی کہتے ہیں۔ یہ بڑی عظمت والی رات ہے، اس رات کو بہتر تو یہ ہے کہ یاد الٰہی میں گزارے۔ ورنہ عشاء کی نماز باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھے اور فجر کی نماز کی تکبیر اولیٰ میں شریک ہوجائے تو شب بھر بیداری کے ساتھ عبادت میں مصروف رہنے کا ثواب ملے گا۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ۴۰۵)
عید کی وجہ تسمیہ:
عید کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن اپنے بندوں کی طرف فرحت و شادمانی باربار عطا کرتاہے یعنی عید اور عود ہم معنی ہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو منافع، احسانات اور انعامات حاصل ہوتے ہیں یعنی عید عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے یا عید کے دن، بندہ چونکہ گریہ و زاری کی طرف لوٹتا ہے اور اس کے عوض اللہ تعالیٰ بخشش و عطا کی جانب رجوع فرماتا ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ بندہ اطاعت الٰہی سے اطاعت رسولﷺ کی طرف رجوع کرتا اور فرض کے بعد سنت کی طرف پلٹتا ہے، ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد ماہ شوال کے چھ روزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس لیے اس کو عید کہتے ہیں عید کی وجہ تسمیہ کے متعلق بعض علماء کا کہنا ہے کہ عید کو اس لیے عید کہا گیا ہے کہ اس دن مسلمانوں سے کہا جاتا ہے(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) کہ اب تم مغفور ہو کر اپنے گھروں اور مقامات کو لوٹ جاؤ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اس کو عید اس لیے کہا گیا کہ اس میں وعدہ و وعید کا ذکر ہے، باندی اور غلام کی آزادی کا دن ہے، حق تعالیٰ اس دن اپنی قریب اور بعید مخلوق کی طرف توجہ فرماتا ہے، کمزور و ناتواں بندے اپنے رب کے سامنے گناہوں سے توبہ اور رجوع کرتے ہیں۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ۴۰۴ اور ۴۰۵)
نماز عید سے قبل میٹھا کھانے کی حکمت:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ جانے سے قبل تین یا پانچ یا سات، طاق عدد میں کھجوریں تناول فرماتے۔( بخاری شریف)
فقہا و محدثین فرماتے ہیں کہ اس میں یہ حکمت ہے کہ کھجوریں کھانا اس لیے مستحب ہے کہ شیریں ہوتی ہے اور شیرینی اس بینائی کو قوت دیتی ہے جو روزہ سے ضعیف ہوجائے۔ نیز شیرینی دل کو نرم کرتی ہے اور ایمانی مزاج کے موافق ہے۔ اس لیے مروی ہے کہ مسلمان آدمی میری شیرینی ہے اور اگر کوئی شخص خواب میں شیرینی کھاتا دیکھے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اسے ایمان کی لذت نصیب ہوگی۔ اس وجہ سے شیرینی سے افطار افضل ہے جیسے شہد اور کھجور سے۔( ماثبت من السنۃ، صفحہ ۲۲۲، ۲۲۳)
عید لافطر کا بیان پڑھنے کے لئے کلک کریں
صدقۂ فطر:
جب تک صدقۂ فطر نہ دیا جائے روزے معلق رہیں گے۔ جو کچھ لغو اور بے ہودہ باتیں روزوں میں سرزد ہوگئی ہیں، صدقۂ فطر روزوں کو ان سے پاک کردے گا۔ صدقۂ فطرعید کے دن صبح صادق کے طلوع ہوتے ہی واجب ہوتا ہے۔ مرد اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی دے اور بالغ اولادکو دینے کی ہدایت کرے اگر باپ نہ ہوتو داداباپ کی جگہ ہے۔ وہ اپنے یتیم پوتا پوتی کی طرف سے صدقۂ فطر دے۔ہر گھر کا سرپرست اپنی زیر کفالت نابالغ افراد (جن میں عید کی نماز سے پہلے پیدا ہوجانے والا بچہ بھی شامل ہے) کی جانب سے فطرہ دینے کا پابند ہے صدقۂ فطر کی مقدار 100روپے فی کس ہے۔ مسنون و بہتر یہ ہے کہ عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرے اگر نہ دیا تو واجب سر پر رہے گا عمر بھر میں جب بھی دینا چاہے ادا ہو جائے گا۔( بہارِ شریعت، حصہ پنجم، صفحہ ۵۵، ۵۶)
رسول اللہ ﷺ کی عید حدیثِ مبارکہ: حضرت ِ جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ عید کی نمازیں ادا کی ہیں اور ہر دفعہ انہیں اذان اور اقامت کے بغیر ہی ادا کیا۔( مسلم شریف)
نبی کریم ﷺ کی یہ عادت شریفہ تھی کہ عیدکی نماز ہمیشہ جامع مسجد کے باہر یا کسی اور جگہ کھلے میدان میں پڑھنے کا حکم دیتے، البتہ ایک دفعہ جب بارش ہوئی تو آپ ﷺ نے مسجد میں ہی نماز ادا کرلی۔( بخاری شریف)
حضور سرورِ عالم ﷺ جب عید گاہ کے لیے روانہ ہوتے تو راستے میں اور نمازِ عید شروع کرنے سے قبل تک تکبیر پڑھتے رہتے، اسے بلند آواز سے پڑھتے، اور واپس ہمیشہ دوسرے راستہ سے آتے، لیکن واپسی کے وقت تکبیر نہیں پڑھتے۔ (بخاری شریف، سننِ کبریٰ بیہقی)
رسول اکرم محبوبِ معظم ﷺنے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو (جب وہ نجران میں تھے ) خط لکھا کہ عید الاضحی کی نماز جلدی پڑھاؤاور عید الفطر کی دیر سے اور اس کے بعد لوگوں کو وعظ و نصیحت کرو۔( مسند امام شافعی)