مفتی   سید کفایت علی کافی شہید رحمۃ اللہ علیہ

نام ونسب:

 اسم گرامی: مولانا مفتی سید کفایت علی کافیؔ۔تلخص:کافی۔لقب: مجاہد جنگ آزادی،بطل حریت،شہید اسلام،عاشقِ خیر الانام۔آپ کا نسبی تعلق ’’نگینہ،ضلع بجنور،یو پی انڈیا‘‘کے معزز خاندان سادات سے ہے۔

مولد ومسکن:

 آپ کی پیدائش آپ کی ابتدائی زندگی سے متعلق معلومات بہت کم ہے ،آپ ضلع بجنور (یوپی) کے سادات گھرانے میں پیدا ہوئے اور مراد آباد کو اپنا مسکن بنالیا تھا۔

تحصیل ِ علم:

  علمائے بدایوں و بریلی کے اکابر علماء سے علم حاصل کیا حضرت شاہ غلام علی نقشبندی دہلوی  کے خلیفہ  اعظم اور شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی کے شاگرد  رشید حضرت شاہ ابوسعید مجددی سے علم حدیث کی تکمیل فرمائی۔ مولانا كافی پر اپنے استاذ و مربی حضرت شاه ابو سعيد مجددی كی شخصیت  كا گہرا اثر تھا۔ اسی وجہ سے آپ كو علمِ حديث اور تصوف سے بے حد شغف تھا، اور رسولِ ﷺ كي سيرت مبارکہ  سے عشق كی حد تك لگاؤتھا۔ علمِ طب مولوی  رحمن علی مصنف تذكره علمائے هند كے والد مولانا حكيم شير علی قادری سے حاصل كيا۔ فن شاعری شیخ مہدی علی خان ذکیؔ مراد آبادی سے فن شاعری سیکھ کر طب وشاعری میں کمال حاصل کیا۔ذکی مرادآبادی کےچار تلامذہ مشہور ہوئے۔صدرالافاضل سید  محمد نعیم الدین  مراد آبادی کے والد مولانا معین الدین نزہتؔ،مولانا سید کفایت علی کافی ؔ مرادآبادی،مولوی محمد حسین تمناؔ،مولوی شبیر علی تنہا۔

بیعت وخلافت:

 غالباً آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں اپنے استاذ محترم حضرت شاہ ابو سعید مجددی علیہ الرحمہ کےمرید تھے،کیونکہ آپ کی سیرت پر ان کا گہرا اثر تھا۔بسیار کوشش کےباوجود مجھے ان کے سلسلہ طریقت  کا علم نہیں ہوسکا،یہ میں نے ظن غالب سے تحریر کردیا ہے۔واللہ اعلم با الصواب۔اگر کسی کےعلم میں ہوتو ضرور مطلع کرے۔(فقیر تونسویؔ غفرلہ)

سیرت وخصائص:

 بطلِ حریت،امام المجاہدین،رئیس العاشقین،سند المتقین،سید العلماء الکاملین،شہید الاسلام،فخر الاسلام،عاشقِ خیر الانام،مجاہد ِ جنگِ آزادی حضرت علامہ مولانا مفتی سید کفایت علی کافیؔ رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ تمام علوم نقلیہ وعقلیہ کےفاضل،فن شاعری کے ماہر،علم طب میں یگانہ ٔ وزگارتھے۔آپ اپنے وقت کے جید عالم دین،باکمال مرشد،بے مثل زاہدِ وقت اور بلند پایہ عاشق رسول ﷺتھے۔ آپ کی حیات کا لمحہ لمحہ  سنت رسولﷺ کاآئینہ دار اور محبت  رسول ﷺ کا پر تو تھا۔اس  لئے آپ کے کلام تصنع اور بناوٹ سے پاک ہے۔آپ کے قول وفعل کی یکسانیت اور فکر ونظر کی طہارت کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ خود مجدد دین ملت امام اہل سنت  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی  علیہ الرحمہ نے آپ کے عشق رسول ﷺ کی حرارت کو محسوس کرتے ہوئے آپ کی بارگاہ میں یوں خراج عقیدت پیش کیا۔

؏:پرواز میں جب حدیث شہ میں آؤں۔۔۔۔تا عرش پرواز فکر رساں میں جاؤں

    مضمون کی بندش تو میسر ہے رضا۔۔۔۔۔۔کافیؔ  کادردِ   دل کہاں  سے  لاؤں

علمِ حدیث سے آپ کو بے پناہ شغف و انہماک تھا۔ عشق رسولﷺ کے جذبات سے ہمہ وقت آپ کا دل لبریز رہتاتھا،اور اشعار کی صورت  میں وہ دل سے زبان پر آجایا کرتا تھا۔یہی وجہ  ہےکہ مولانا  کافی علیہ الرحمہ نے نعتیہ اشعار بہت کہے ہیں۔اسی جذبہ مسعود اور وصف محمود سے متأ ثر ہوکر عاشق رسول امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ نے آپ کو’’سلطان نعت گویاں‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے:

؏:مہکا ہے مری بوئے دہن سے عالم ۔۔۔۔۔ یاں نغمۂ شیریں نہیں تلخی سے بہم

کافیؔ سلطانِ نعت گویاں  ہیں  رضاؔ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ان شاء اللہ میں وزیر اعظم  

یہ تمام حقیقتیں اپنی جگہ مگر حضرت  مولانا کافی علیہ الرحمہ کےنام کو جس چیز نے امر بنایا وہ ہے ان کا جذبۂ  آزادی۔مولانا کافی نے جس وقت آنکھیں کھولیں  وہ انگریزوں کے جبرو استداد کےعروج کا دور تھا۔انگریز پورے ہندوستان میں اپنی مکاری کا جال پھیلا چکے تھے اور رفتہ رفتہ اپنا  خونی شکنجہ کسنے کی پوری تیاری کرچکے تھے۔ہندوستان کی دھرتی پر مقامی افراد افلاس وتنگدستی پر مجبور تھے اور بیرونی غاصب عیش وعشرت میں مسرور۔دیسی نوابوں، رئیسوں ،اور خاندانی لوگوں کی عزتیں خاک میں ملائی جارہی تھیں،اور بدیسی غارت گروں  کی عظمتوں کا پھریرا لہرایا جارہا تھا۔ایسے پر آشوب  اور مہیب دور میں حضرت مولانا کافی علیہ الرحمہ نے جب اپنے گردو پیش پر نظر ڈالی تو آپ کی شخصیت  اور مذہبی غیرت نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔پھر اس  کے بعد آپ نے انگریزوں کے ناپاک  وجود سے اس دھرتی  کو آزاد کرانے کا عزم مصمم کرلیا۔     

مولانا سید کفایت علی کافیؔ جنرل بخت خاں روہیلہ کی فوج میں کمانڈر ہو کر دہلی آئے۔بریلی،الہ آباد اور مرادآباد میں انگریز سے معرکہ آرائی رہی۔بعض علاقوں کو انگریز سے بازیاب کرانے کے بعد جب اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں آیا تو آپ ’’صدرِ شریعت‘‘ اور ’’امیر شریعت‘‘ بنائے گئے۔ امداد صابری لکھتے ہیں: ’’انگریز مرادآباد سے بھاگ کر میرٹھ اور نینی تال چلے گئے، نواب مجو خاں حاکم مرادآباد مقرر ہوگئے۔ عباس علی خاں بن اسعد علی خاں ہندی توپ خانہ کے افسر معین ہوئے اورمولوی کفایت علی صاحب صدرِ شریعت بنائے گئے، انھوں نے عوام میں جہادی روح پھونک دی۔ شہر میں ہر جمعہ کو بعد نماز انگریزوں کے خلاف وعظ فرماتے جس کا بے حد اثر ہوتا تھا۔

جنگِ آزادی میں خدمات: 

مرادآباد میں شورش کے ایام میں مولانا کافیؔ حالات کی رپورٹ بذریعہ خط جنرل بخت خاں کو بھیجتے رہے۔ آپ نے فتاویٰ جہاد کی نقلیں مختلف مقامات پر بھیجیں۔مولانا وہاج الدین مرادآبادی (وفات 1858ء) بھی حریت پسند اور قائدینِ جہادِ آزادی1857ء میں تھے، آپ اور مولانا کافیؔ نے مل جُل کر مرادآباد میں ماحول سازی کی اور لوگوں کو جہاد کے لیے آمادہ کیا۔ انگریزی مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور رائے عامہ ہم وار کی۔ آنولہ ضلع بریلی میں حکیم سعیداللہ قادری کے یہاں قیام پزیر رہ کر اطراف میں حریت کی صدا بلند کرتے رہے۔یہاں سے بریلی گئے اور خان بہادر خاں نبیرۂ حافظ الملک حافظ رحمت خاں روہیلہ سے ملاقات کی،ان سے جہاد کے عنوان پر تبادلۂ خیال کیا۔واضح ہو کہ روہیلہ پٹھانوں کا یہ قبیلہ بڑا جری و بہادر تھا، اعلیٰ حضرت محدث بریلوی کا بڑھیچ قبیلہ اوپر جا کر روہیلوں سے جا ملتا ہے۔ مولانا کافیؔ بریلی سے مرادآباد آئے اور تگ ودو میں لگے رہے۔

مقدمہ ٔو شہادت:

 26 اپریل 1858ء کو جنرل مونس گورہ فوج لے کر مرادآباد پر حملہ آور ہوا۔ مجاہدین جاں نثاری سے لڑے۔نواب مجو خاں آخری وقت تک ایک مکان کی چھت پر بندوق چلاتے نظر آئے۔ آخر کار جامِ شہادت نوش کیا۔سقوطِ مرادآباد کے ساتھ ہی تمام انقلابی راہنما منتشر ہو گئے۔ جو انگریز حکومت کے ہاتھ آئے وہ تختۂ دار پر چڑھا دیے گئے یا حبسِ دوام بہ عبور دریائے شورکالاپانی کی سزا سے ہم کنار ہوئے۔مولانا کفایت علی کافیؔ کو غدار  ملک وملت ،انگریز پٹھو فخرالدین کلال کی مخبری سے انگریز نے گرفتار کر لیا۔ سزاؤں کا اذیت ناک مرحلہ شروع ہوا۔ جسم پر گرم گرم استری پھیری گئی۔ زخموں پرنمک مرچ چھڑکی گئی۔ اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے انگریزوں نے ہر حربہ استعمال کیا۔ جب اس مردِ مجاہد سے انگریز مایوس ہو چکا تو برسرِ عام چوک مرادآباد میں اس عاشقِ رسول کو تختۂ دار پر لٹکا دیا۔4 /مئی 1858ء کو مقدمہ کی پیشی ہوئی اور جلد ہی پھانسی کی سزا سنائی گئی۔مسٹرجان انگلسن مجسٹریٹ کمیشن مرادآباد نے فیصلہ سنایا۔ 6 مئی 1858ء مقدمہ کی پوری کارروائی صرف دو دن میں پوری کردی گئی۔4 مئی کو پیشی ہوئی، اور 6 مئی کو پھانسی کاحکم دے دیا گیا۔اور اسی وقت پھانسی دے دی گئی۔ جب پھانسی کا حکم سنایا گیا مولانا کافیؔ  بہت ہی مسرور و وارفتہ تھے۔ قتل گاہ کو جاتے ہوئے زبان پر یہ اشعار جاری تھے۔

کوئی گل باقی رہے گا نَے چمن رہ جائے گا

پر رسول اللہ کا دینِ حَسَنْ رہ جائے گا

ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دَم کا چہچہا

بلبلیں اُڑ جائیں گی، سوٗنا چمن رہ جائے گا

اطلس و کم خواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو

اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا

جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود

آگ سے محفوظ اس کا، تن بدن رہ جائے گا

سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ ولیکن حشر تک

نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا

اس جنگ آزادی کی ناکامی  اسباب :

اول: کوئی مرکز نہیں تھا،جوتمام معاملات کو کنٹرول میں  رکھتا۔اسی طرح کوئی ایسی ملک گیر تنظیم بھی نہیں تھی جس میں اتحاد ویگانگت  کی فضاء اور حالات پر گہری نظر ہوتی۔دوم: غدار بہت زیادہ تھے۔میر جعفر،میر صادق کا کردار ادا کرنے والے خبیث الفطرت،لالچی طبیعت کےافراد بہت زیادہ تھے۔آج بھی امت کےزوال میں ایسے لوگوں کا کردار ہے۔

تاریخِ شہادت:

  آپ  کی شہادت بروز جمعرات 22/رمضان المبارک 1274ھ،مطابق 6/مئی 1858ء کوہوئی۔

مدفن: 

مولانا کافی  شہید علیہ الرحمہ کو مراد آباد جیل کے سامنے مجمع عام  کے روبرو پھانسی دی گئی اور وہیں کسی مقام پر رات کی تاریکی میں دفن کردیا گیا۔دفن کے سلسلے میں عوام کے درمیاں مختلف راویات گردش کرتی ہیں۔صحیح روایت: مولانا سید ظفر الدین احمد بن مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی کی ہے وہ بیان کرتے ہیں: کہ ایک سڑک اس مقام سےنکالی جارہی تھی اور مولانا کافی شہید کی قبر کانشان نمایاں نہیں تھا۔مزدور کام کررہے تھے کہ مولانا کی قبر کھل گئی اور مزدور کا پھاؤڑا مولانا کافی کی پنڈلی پر لگا۔جسم اطہر ویسا ہی تھا جیسا شہادت کے وقت تھا۔بزرگ لوگوں نے چہرہ مبارک دیکھ کر شناخت کرلیا،اور کثیر تعداد میں لوگ زیارت کرنے کےلئے جوق درجوق آنے لگے۔مزدوروں نے انجینئر سے بیان کیا اور وہ خود دیکھنے آیا،وہ میت صحیح سلامت دیکھ کرمرعوب ہوگیا اور احتراماً عوام کو ہٹاکر قبر پر دوبارہ تختے لگواکر بالکل ٹھیک کردیا اور وہیں سے سڑک کا رخ تبدیل کردیا۔جس کی وجہ سے سڑک میں آج بھی ٹیڑھاپن موجود ہے۔(چند ممتاز علمائے انقلاب:98)

ماخذ ومراجع:   تذکرہ علمائے اہل سنت۔چند ممتاز علمائے انقلاب۔علماء ہند کا شاندار ماضی۔

مضامین

Menu