جانشینِ صدر الشریعہ ، محدث کبیر ، سلطان الاساتذہ، ممتاز الفقہاء

حضرت علامہ مفتی ضیاء المصطفیٰ قادری رضوی امجدی دامت برکاتہم العالیہ


آپ فقیہ اعظم حضرت صدرالشریعہ مولانا شاہ محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے اور جانشین ہیں۔آپ ایک مرشد طریقت بھی ہیںبرصغیر کے علاوہ بھی آپ کے مریدین و متوسلین کا اچھا خاصہ حلقہ ہے۔آپ کو کئی بار حج وزیارت کا شرف بھی حاصل ہوچکا ہے۔ ملک وبیرون ملک تبلیغی اسفار کاسلسلہ اب بھی جاری ہے۔آپ ملک کے متعدد مدارس کی سرپرستی بھی فرمارہے ہیں۔ خاص طور پر ہوڑہ کا’’دارالعلوم ضیاء الاسلام ‘‘،گھوسی میں ’’جامعہ امجدیہ رضویہ‘‘ اور لڑکیوں کا مدرسہ ’’کلیۃ البنات الامجدیہ‘‘۔آپ کی نمایاں خصوصیات میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ ایک نابغۂ روزگار فقیہ ہیں۔آپ کی فقہی بصیرت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مبارک پور سے تکمیلِ درس کے بعداس نو عمری میں آپ نے ایک کل ہند فقہی مقابلے میں حصہ لیا۔جس میں ہندستان کے بہت سارے اسکالرز نے حصہ لیا۔اس میں محدثِ کبیر نے پہلا مقام حاصل کیا۔اسی موقع پر آپ کو ’’ ممتازالفقہا‘‘ لقب دیا گیا۔آپ شرعی کونسل آف انڈیا بریلی کے صدر ہیں۔جس کے تحت حضور تاج الشریعہ علامہ ازہری میاں کی نگرانی میں ہر سال فقہی سیمی نار منعقد کیا جاتا ہے اور نَوپید مسائل کا شرعی حل پیش کیا جاتاہے۔دی رائیل اسلامک اسٹراٹے جِک اسٹڈی سینٹر (جارڈن  ) پوری دنیامیں اثرورسوخ رکھنے والے پانچ سو مسلم افراد پر مشتمل سروے رپورٹ پیش کررہا ہے۔ ۲۰۱۳ء،۱۵۔۲۰۱۴ء، ۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۷ء کی سروے رپورٹ میں علامہ موصوف کا نام مسلسل آ رہا ہے ۔

ولادت اور اسم گرامی :

حضور محدثِ کبیرکی ولادت ۲؍ شوال المکرم ۱۳۵۴ھ بروز اتوارمدینۃ العلماء گھوسی اُتر پردیش میں صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رضوی علیہ الرحمہ (مصنف بہارِ شریعت) کے یہاں ہوئی۔آپ کا خاندان علم و فضل کے اعتبار سے مشہور و معروف ہے۔ والد ماجد صدرالشریعہ کو امام احمد رضا محدثِ بریلوی سے شرفِ تلمذ اور خلافت بھی ہے۔ جد امجد مولاناحکیم جمال الدین ابن مولانا خدا بخش ابن مولانا خیرالدین علیہم الرحمہ بھی اپنے وقت کے ماہر حکیم اور عالمِ باعمل گزرے ہیں۔

تعلیم وتربیت:

ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔بچپن ہی سے تحصیلِ علم اور علمی مباحث میں حصہ لینے کا شوق تھا۔آپ کی ذہانت و فطانت اور علمی و فکری دل چسپی کو ملاحظہ کرنے کے بعد صدر الشریعہ نے فرمایاتھا : ’’ ان شآء اللہ! میرا یہ بیٹا مستقبل میں ایک بڑا عالم بنے گا۔‘‘اس فقرے کا مرکزی خیال یہ واقعہ ہے: 

’’ایک مرتبہ پارۂ عم پڑھتے وقت سورۂ فیل کے سبق میں دریافت کیاکہ یہ ’’ابابیل‘‘وہی تو نہیں جسے ہم دیکھتے ہیںاور ’’سجیل‘‘کاکیامطلب؟ جب حضرت صدرالشریعہ نے یہ سمجھایا تو آپ نے کہاکیایہ انھیں ابابیل کا واقعہ ہے جنہوں نے ہاتھیوں کو مارگرایا؟غالباًآپ کی والدہ ماجدہ نے کبھی یہ واقعہ سنایاتھا اور وہ اب تک حاشیۂ ذہن میں محفوظ رہ گیاتھا۔ اس پر حضرت صدرالشریعہ بہت ہی مسرور ہوئے اور فرمایاکہ میرا یہ بچہ آئندہ بہت بڑاعالم ہوگا۔‘‘

 دوسرے سفر حج وزیارت سے قبل فیض العارفین حضرت مولاناغلام آسی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ آپ کو ناگپور بھیج دیا جہاں آپ نے عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔آپ حضرت صدرالشریعہ کے آخری شاگرد ہیںاس لیے کہ اسی سفر حج میں حضرت صدرالشریعہ کاوصال ہوگیا تھا۔شوال المکرم ۱۳۶۹ھ میں درس نظامیہ کی تکمیل کے لیے جامعہ اشرفیہ مبارک پور تشریف لائے اور اپنی محنت اور ذہانت کی وجہ سے ہمیشہ تمام رفقاے درس میں ممتاز رہے اور ۱۳۷۷ھ میں آپ کی دستار فضیلت ہوئی۔

آپ کی دل چسپی اور ذہانت کے مدِ نظر حضورحافظِ ملت آپ پر خاص توجہ فرماتے۔ ۱۳۷۷ھ میں درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد بھی مزید دو سال تک حضور حافظِ ملت نے آپ کی مزید خصوصی طور پر تعلیم و تربیت فرمائی۔ آپ کی تعلیمی صلاحیت سے متعلق حافظ ملت فرمایا کرتے تھے : 

’’میں اس طالبِ علم(حضور محدثِ کبیر) کو اتنا پڑھا سکتا ہوں جتنا دوسرے سَو طلبا کوبھی نہیں پڑھا سکتا۔‘‘یعنی حضور محدثِ کبیر اتنی قابلیت رکھتے ہیں کہ دیگر سو طلبا سے زیادہ علم حاصل کر سکتے ہیں۔چناں چہ ان کے والد اور استاذِ گرامی کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی اور آج ان کی علمی شان و شوکت اور محدثانہ عظمت سے اہل علم واقف ہیں۔حضور حافظ ملت اکثر کہا کرتے تھے:’’ میں نے جو کچھ اپنے استاد صدرالشریعہ سے حاصل کیا، سب ضیاء المصطفیٰ ( محدثِ کبیر) کو دیا۔‘‘

حضور محدثِ کبیر پر ان کے اساتذہ کی یہ عنایت و مہربانی کسی ذاتی منفعت کے لیے نہیں تھی بلکہ ان کی پیشانی سے چمکنے والی خوش بختی و سعادت مندی کی کرنوں کا مشاہدہ کرنے کے بعدانہوں نے خصوصی توجہات سے نوازا۔

بیعت وخلافت :

آپ کو حضور مفتی اعظم ہند حضرت مولانامصطفی رضاقادری برکاتی خاں نوری قدس سرہٗ سے بیعت وخلافت اور صحاح ستہ ودیگر کتب میں اجازت حاصل ہے۔ 

٭اساتذہ کرام :

 حضور صدرالشریعہ،حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ، بحرالعلوم علامہ عبدالمنان اعظمی۔

تدریسی خدمات:

حضور حافظ ملت نے آپ کو محض ۲۲؍سال کی عمر میں ’’دارالعلوم فتحیہ‘‘فرفرہ شریف ضلع ہگلی ،بنگال بہ حیثیت شیخ الحدیث بھیجا۔وہاں آپ کی عمر کو دیکھتے ہوئے لوگ بہت شکستہ خاطر ہوئے

کہ بھلایہ کیا اس منصب کو سنبھال پائیں گے مگر دوسرے روز بغیر مطالعہ جلالین شریف، مقامات حریری اور بخاری شریف وغیرہ کا جب درس دیا تو سب دنگ رہ گئے اور آپ کے گرویدہ ہوگئے۔ تقریباً دس سالوں تک وہاں بحیثیت شیخ الحدیث تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔اس کے بعد بنگال کی سنیت کی حیات تازہ کے لیے آپ نے بے پناہ جدو جہد کے بعد ہوڑہ میں ’’دارالعلوم ضیاء الاسلام ‘‘ قائم کیاجوآج بھی دینی خدمات انجام دے رہاہے۔

۱۳۹۲ھ میں حضرت علامہ حافظ عبدالرئوف بلیاوی علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد حضور حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی جگہ پر آپ کو بلا کرمقرر فرمایا۔آپ کو درس نظامیہ کے جملہ فنون پر مہارت تامہ حاصل ہے خصوصاً فن حدیث میں ایسا ملکہ ہے کہ علمی حلقوں میں آپ ’’محدث کبیر‘‘کے خطاب سے یاد کیے جاتے ہیں۔علمی صلاحیت اور تحقیقی اُمو ر میں اکابر علما نے بھی آپ کی علمی لیاقت کو تسلیم کیاہے۔چنانچہ جب امریکی خلابازوں نے چاند پر پہنچنے کا دعویٰ کیاتو بریلی شریف میںاس کی شرعی تحقیق کاکام آپ کے سپرد کیاگیا۔آپ عرصۂ دراز تک جامعہ اشرفیہ مبارک پورکے شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہنے کے بعد اب اس سے دستبردارہوکر گھوسی میں اپنا قائم کردہ ادارہ ’’الجامعۃ الامجدیہ‘‘چلارہے ہیںاور اسی میں شیخ الحدیث بھی ہیں۔مدرسۃ البنات پورے ہندوستان میں اپنی نوعیت کا منفرد مدرسہ نسواں ہے جس کی عالمات وفاضلات خواتین کے اندر علمی وفکر بالیدگی اور دینی حرارت پیداکیے ہوئے ہیں۔  

 آپ کی تدریسی خدمات کا عرصہ تقریباً نصف صدی کومحیط ہے اس میں انہوں نے مسلسل چالیس سال احادیث پڑھائی، فتاوے لکھے،دنیا کے مختلف جامعات میں درسِ حدیث کے افتتاح و اختتام میں دروس دیتے آرہے ہیں۔

ممتازتلامذہ:

آپ کے تلامذہ کا سلسلہ ملک اور بیرون ملک کثیر تعداد میں پھیلا ہوا ہے۔ آپ کے ہزاروں تلامذہ ہیں جودنیا کے مختلف گوشوں میں مصروفِ خدمت دین ہیں۔برصغیر میں علماے اہلِ سنت کی ہر سال تقریباً ایک ہزار نئی کتابیں اور رسالے منظرعام پر آتے ہیں۔اسلامک لٹریچر بورڈ لکھنؤ کے مطابق ان کتب و رسائل کے مصنفین میں ۹۵؍فی صد حضور محدثِ کبیرکے شاگرد ہوتے ہیں۔آپ کے تلامذہ میں بہت سارے شیخ الحدیث،صدرالمدرسین اور استاذ الاساتذہ ہوئے۔ معاصرین میں آپ کی بے لوث تدریسی خدمات کے پیشِ نظر آپ کو’’سلطان الاساتذہ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

تصنیف وتالیف:

تدریس اور تبلیغی اسفار کی بدولت مکمل یکسوئی کے ساتھ آپ کو تحریری کام کی مہلت نہ ملی تاہم آپ تحریری صلاحیت کے بھی مالک ہیں۔ملک کے مؤقر جرائد میں آپ کے متعدد علمی مقالات ومضامین شائع ہوکر دادوتحسین حاصل کرچکے ہیں۔

ماضی میں آپ نے ترمذی شریف کی مفصل شرح لکھنا شروع کی،مختصر سی مدت میں ایک اچھاخاصاذخیرہ جمع کردیا۔شرح کاجو بھی کام ہوا،بہت وقیع ہواجس میںاحادیث کی تشریح ، متعارض احادیث کے درمیان تطبیق،اپنی تائید میں احادیث کا ذکر،اسماء الرجال اور فی الباب اور اضطراب پر مفصل کلام فرمایامگر عدیم الفرصتی کے باعث وہ کام فی الحال ملتوی ہے۔ایک بار آپ نے فرمایاکہ حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کا ’’حاشیۂ شرح معانی الآثار‘‘ایک زمانے سے رکھا ہوا ہے۔ہندوبیرون ہند سے اس کی طباعت واشاعت کا پیہم اصرار ہوتا ہے مگر اس میں ابھی بہت سا کام باقی ہے۔مثلاً:آغاز میں احادیث کی تخریج مذکور نہیں،اسماء الرجال پر گفتگو نہیں،مزید بعض مقامات میں خوداحادیث کی شروح میں بھی اضافہ ضروری ہے۔لہٰذایہ سب کام پہلے کرلیا جائے تاکہ حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کا یہ علمی شاہکار منظرعام پر لایاجاسکے۔ اس طرح شرح ترمذی کا کام ملتوی کرکے مذکورہ اُمور کی تکمیل میں مصروف ہوگئے۔

وعظ وخطابت:

آپ کی خطابت کی دھوم نہ صرف ملک ہندوستان بلکہ یورپی اور افریقی ممالک میں بھی ہے۔آپ کی تقریرخالص علمی،تحقیقی اور فکری ہوتی ہے۔علمی حلقوں میں آپ کی تقریر بہت پسند کی جاتی ہے۔آپ ایک بہترین مناظر بھی ہیں۔متعدد مقامات پر آپ نے غیروں کو اپنی حدیث دانی کی بنیاد پر لاجواب کردیاہے۔آپ کے منتخب خطبات کا مجموعہ ’’خطبات محدث کبیر‘‘کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔

ہوڑہ میں آپ نے ’’دارالعلوم ضیاء الاسلام‘‘کا قیام فرمایاجو آج بھی اپنی خدمات انجام دے رہاہے۔

حوالہ جات:

(۱)تجلیات رضا،بحرالعلوم نمبر،ص؍۳۹۶،امام احمدرضااکیڈمی۲۰۱۳ء 

(۲)خطبات محدث کبیر،اول،ص؍۲۴۲تا۲۵۶،دائرۃ المعاف الامجدیہ،گھوسی،۲۰۰۱ء

(۴)دی مسلم ۵۰۰،۲۰۱۳ء،۱۵۔۲۰۱۴ء، ۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۷ء، دی رائیل اسلامک اسٹراٹے جِک اسٹڈی سینٹر(جارڈن )

نگارشات

حیات و خدمات

مضامین

مناقب

متفرقات

Menu