سراج الامہ امام اعظم ابو حنیفہ  نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ


امام الائمہ امام المجاھدین جلیل القدر تابعی فقہ حنفی کے بانی حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ 80 ہجری (5سمتبر 698عیسوئی) میں عراق کے مشہور شہر “کوفہ “میں پیدا ہوئے ۔

آپ کا اسم گرامی نعمان کنیت ابو حنیفہ ۔آپ کے القابات ہیں امام اعظم، امام الائمہ، سراج الائمہ، فقہ حنفی کے بانی، امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ ۔آپ آفتاب شریعت ،مہتاب طریقت، پیشوائے سالکین،اور وقف رموز حقائق تھے۔

شافعی مالک احمد امام حنیف               چار باغ امامت پہ لاکھوں سلام

امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے مزار  کا اندرونی منظرۘ

آپ کی تعریف میں ہر محدث، امام، فقیہ مدح سرا ہے۔یہی آپ کی جلالت شان کی اعلیٰ دلیل ہے۔کہ آپ نے صحابہ کرام کی ایک کثیر تعداد کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو منور کیا۔جن اصحاب رسول ﷺ سے آپ نے ملاقات کیا وہ یہ ہیں ۔

حضرت انس بن مالک، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن اوفیٰ، حضرت واثلہ بن اسقع،حضرت عبداللہ بن انس،حضرت عبداللہ بن حارث، حضرت معقل بن یسار،حضرت عائشہ رضوان اللّه تعالی علیھم اجمعین شامل ہیں ۔

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے بھی آپ کا رشتہ انتہائی عقیدت واحترام کا تھا۔آپ کے تلامذہ کی ایک لمبی فہرست ہے ان میں چند کے اسماء گرامی ہیں ۔ حضرت فضیل بن عیاض، حضرت ابراہیم بن ادھم، حضرت بِشر حافی،حضرت داؤد طائ،حضرت امام محمد جیسے صاحب علم وعمل اور اپنے وقت کے امام و ولی شامل ہیں ۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فارسی النسل تھے۔آپ کے والد کا نام ثابت تھا ۔آپ کے دادا نعمان بن مرزان کابل کے اعیان واشراف میں بڑا ہی فھم وفراست کے مالک تھے۔آپ کے والد حضرت ثابت بچپن میں حضرت علی شیر خدا مشکل کشا رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لائے گئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم نے آپ اور آپ کی اولاد کے لئے برکت کی دعا فرمائی جو ایسی قبول ہوئی کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ جیسا عظیم محدث وفقیہ اور خدا ترس انسان پیدا ہوا۔

آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں ضروری علم کی تحصیل کے بعد تجارت شروع کی آپ کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے علم حدیث کی معروف شخصیت حضرت شیخ عامر شعبی کوفی رضی اللہ عنہ جنھیں پانچ سو500 سے زائد اصحاب رسول ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہے۔انہوں نے ہی آپ کو مشورہ دیا کہ تجارت چھوڑ کر دوبارہ علم حاصل کرنے میں لگ جائیں اور اس میں کمال حاصل کریں ۔

چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ امام عامر کوفی رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر علم کلام و علم حدیث اور علم فقہ کی توجہ فرمائ اور ایسا کمال پیدا کیا کہ علمی وعملی دنیا میں امام اعظم کہلائے۔آپ نے کوفہ،بصرہ کے بے شمار شیوخ سے علمی استفادہ حاصل کرنے کے ساتھ حصول علم کےلئے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، اور ملک شام کے متعدد اسفار کئے۔

ایک وقت ایسا ہوا کہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو ملک کے قاضی ہونے کا مشورہ دیا ۔لیکن آپ نے معذرت چاہی تو خلیفہ اپنے مشورہ پر اصرار کرنے لگا چنانچہ آپ نے صراحتًا انکار کر دیا اور قسم کھائی کہ وہ یہ عہدہ قبول نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے 146ہجری میں آپ کو قید کردیا۔

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی علمی شہرت کی وجہ سے قید خانہ میں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور امام محمد جیسے محدث وفقیہ نے جیل میں ہی آپ سے تعلیم حاصل کی۔آپ کی مقبولیت سے خوفزدہ خلیفہ منصور نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو زہر دلوا دیا۔جب امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو آپ نے سجدہ کیا اور اسی حالت میں 70ستر سال کی عمر پاکر 2 شعبان المعظم 150 ہجری (18جون 767عیسوئی) میں وفات پائی ۔آج بھی بغداد شریف کے قبرستان خیزران میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے (تاریخ بغداد صفحہ 325)

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ تقریبًا 50000پچاس ہزار افراد نے پڑھی۔375 ہجری میں اس قبرستان کے قریب ایک بڑی مسجد “جامع الامام الاعظم” کے نام سے تعمیر کی گئی جو آج تک موجود ہے۔غرضیکہ 150ہجری میں صحابہ کرام و بڑے تابعین سے روایت کرنے والا ایک عظیم محدث نادر و نایاب فقیہ دنیا سے رخصت ہو گیا ۔

اس طرح امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ صرف اور صرف اللہ تعالی کے خوف سے قاضی کے عہدہ کو قبول نہ کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کا نذارنہ پیش کردیا تاکہ خلیفۂ وقت اپنی مرضی کے مطابق کوئ فیصلہ نہ کراسکے جس کی وجہ سے مولائے حقیقی ناراض ہو ۔

امام اعظم کے اوصاف:

حضرت سیدنا ابو نعیم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی ہیئت و حالت چہرہ اور جوتے اچھے ہوتے تھے ۔امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنے پاس آنے والے ہر شخص کی مدد فرماتے تھے۔آپ کا قد درمیانہ تھا تمام لوگوں سے زیادہ احسن انداز میں کلام فرماتے اور کثرت سے خوشبو استعمال فرماتے جب باہر تشریف لاتے تو اچھی خوشبو سے پہنچانے جاتے تھے ۔(اخبار ابی حنیفہ وصحابہ صفحہ نمبر 17۔

حضور اکرم ﷺ کی بشارت:

مفسر قرآن حضرت شیخ جلال الدین سیوطی شافعی مصری رحمتہ اللہ علیہ، (ولادت 829 ہجرہ ،وفات 911ہجری)۔ اپنی کتاب تبیض الصحیفہ فی مناقب الامام ابی حنیفہ میں بخاری ومسلم و دیگر کتب احادیث کے حوالے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال مبارکہ بیان کرتے ہیں کہ:

اگر ایمان ثریا ستارے کے قریب بھی ہوگا تو اہلِ فارس میں بعض لوگ اس کو حاصل کر لیں گے(بخاری)

اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس بھی ہوگا تو اہلِ فارس میں سے ایک شخص اس میں سے اپنا حصہ حاصل کر لےگا(مسلم)

اگر دین ثریا ستارے پر بھی معلق ہوگا تو اہلِ فارس میں سے کچھ لوگ اس کو حاصل کر لیں گے(طبرانی )

حضرت امام جلال الدین سیوطی شافعی ان تمام اقوال کو تحریر فرمانے کے بعد کہتے ہیں اقول یعنی میں کہتا ہوں کہ حضور اکرم ﷺ کے ارشاد مبارکہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسی صریح ہیں کہ ان پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے ۔

حضرت شیخ شہاب الدین احمد بن حجر الھیثمی الملکی الشافعی ولادت 909ہجری،وفات 973ہجری) اپنی مشہور ومعروف کتاب الخیرات الحسان فی مناقب ابی حنیفہ میں تحریر کیا ہے کہ:

حضرت شیخ جلال الدین سیوطی شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے بعض تلامذہ نے فرمایا اور جس پر ہمارے مشائخ نے بھی اعتماد کیا کہ ان احادیث مصطفی ﷺ کی مراد بلاشبہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔اس لئے کہ اہل فارس میں ان کے معاصرین میں سے کوئی بھی علم کے اس درجہ کو نہیں پہنچا ۔جس پر امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فائز تھے۔

ان احادیث مصطفی ﷺ کی مراد میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے مگر عصر قدیم سے اب تک ہر زمانے کے محدثین، فقہا،اور علماء کرام کی ایک کثیر جماعت نے تحریر کیا ہے کہ ان احادیث مصطفی ﷺ سے مراد حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔علماء شوافع نے خاص طور پر اس قول کو مدلل کیا ہے جیسا کہ شافعی مکتبہ فکر کے دومشہور جید علماء مفسر قرآن کے اقوال ذکر کئے گئے۔

حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ جو فن حدیث کے امام شمار کئے جاتے ہیں ان سے جب حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کی ایک جماعت کو پایا اس لئے کہ وہ 50ہجری کو کوفہ میں پیدا ہوئے ۔اور فرمایا وہاں صحابہ کرام میں سے حضرت عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہ موجود تھے اور جن صحابہ کرام سے آپ کی ملاقاتیں ہوئ یا ان کی مبارک صحبت کو پایا اس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔

الحاصل حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ تابعی ہیں اور آپ کا زمانہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین کا زمانہ ہے ۔جس دور کی امانت و دیانت اور تقویٰ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ۔

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۰۰﴾(سورۃ التوبہ: 100)

ترجمہ ۔اور سب میں اگلی پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں۔یہی بڑی کامیابی ہے ۔(کنزالایمان)

فقہ حنفی کی تدوین واشاعت:

اللہ تعالی نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو انتہائی فھم وفراست سے بھی نوازا تھا ۔آپ نے جب دیکھا کہ علم ایک جگہ یا ایک فرد کے پاس نہیں ہے اور وہ اطراف عالم میں منتشر ہوچکا ہے ۔اب ضرورت ہے کہ اسے یکجا کیا جائے ورنہ وہ ضائع ہو جائے گا ۔یا پھر اس کی اصل صورت بدل جائے گی آپ کے پیش نظر یہ بھی تھا کہ ایک صدی میں بڑا تغیر ہوچکا ہے اور آئیندہ دور میں یہ تغیر رک نہیں سکتا اس لئے اس علم کو یکجا کرنا چاہیے اور قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے ایسا دستور العمل مرتب کرنا چاہیے جس میں تمام چیزوں کی رعایت ہو اسی وجہ اسلامی قانون کی تدوین اور اس کے اصولوں کو متعین کرنا ضروری ہوا۔

آپ 13ہجری سے اپنی درسگاہ اس نہج پر ترتیب دی اور فقہ اسلامی کی تدوین کا کام شروع کردیا درمیان میں کچھ عرصے کے لئے تدوین کا کام رکا بھی لیکن 132ہجری سے پھر پابندی سے اس کام کو جاری رکھا اور بالآخر 150ہجری میں اس کام کی تکمیل ہوئ اور امت مسلمہ کے لئے ایک عظیم سرمایۂ علم وحیات محفوظ ہوا۔

غرضیکہ آپ نے اسلامی فقہ کی تدوین بھی ایک جمہوری اور شورائ انداز میں نہایت ہی محنت شاقہ کے تحت فرمائی۔اور آپ نے امت مسلمہ پر احسان فرمایا کہ تدوین فقہ کی ضرورت کو محسوس کیا اور ام کا شیرازہ بکھرنے سے بچالیا۔اور امت کو ایسا دستور مہیا فرمایا جس میں اقوام عالم کے مزاج کی رعایت موجود ہے ۔اور حالات وضروریات کے تحت انسانی زندگیوں میں جو نشیب وفراز پیدا ہوتے رہتے ہیں ان کا پورے طور پر خیال رکھا گیا ہے۔

اللّه تعالیٰ ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا فیضان مسلمانان عالم پر قیامت تک جاری و ساری فرمائے ۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ۔

قلمی نگارشات

حیات و خدمات

تذکرۂ امام اعظم بزبانِ تاج الشریعہ

Menu