امیر المومنین خلیفۂ سوم حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ۔کنیت: ابوعبداللہ۔ لقب:غنی،جامع القرآن،اور ذوالنورین،یعنی دونوروں والا ہے۔(کیونکہ حضورﷺ کی دو صاحبزادیاں یکے بعددیگرے آ پ کے نکاح میں رہیں)۔منقول ہے کہ آج تک کسی انسان کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی کہ اس کے عقد میں کسی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں(سنن البیہقی)۔ رسول اللہ ﷺفرمایا کرتے تھے: اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے نکاح کرتا چلا جاتا۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے: امیرالمومنین عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدالشمس بن عبدالمناف۔ آپ کی والدہ کا نام ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبدمناف تھا۔آپ کی نانی کانام امِ حکیم بیضاء بنتِ عبدالمطلب تھا جو آنحضرتﷺکے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی سگی بہن تھیں،اور دونوں جڑواں پیداہوئے تھے ،رسولِ اکرم ﷺکی پھوپھی تھیں۔اس لحاظ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی زاد بہن کے بیٹے ہوئے۔ آپ کا نسب والدہ اور والد دونوں نسبتوں سے آنحضرتﷺکے جد امجد حضرت عبد مناف سے ملتا ہے۔ حضرت عبد مناف حضرت رسول اکرمﷺ کے جد چہارم اور حضرت عثمانرضی اللہ عنہ کے جدپنجم تھے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت واقعۂ فیل کے چھ سال بعد مکۃ المکرمہ میں ہوئی۔
قبولِ اسلام: امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوشش سے مشرف با اسلام ہوئے۔آپ اسلام قبول کرنے والے چوتھے شخص ہیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل: اہل حق اہلِ سنت وجماعت کا متفقہ نظریہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے بلند مقام حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا، ان کے بعد حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا اور ان کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ہے اور یہ نظریہ حضور ﷺ کی زندگی ہی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
” كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ”
(صحیح بخاری ج1ص516 باب فضل ابی بکررضی اللہ عنہ)
ترجمہ: ہم حضور علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دیتے تھے۔ سب سے بہترحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سمجھتے تھے، ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو۔
1۔شیخین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام نے حضرت عثمان کے آنے پر اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور فرمایا ! کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔۔(الصواعق المحرقہ ،ص ، ۳۷۵ )
2۔ابو نعیم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ! کہ عثمان میری امت کا سب سے زیادہ حیا دار اور کریم شخص ہے۔۔(الصواعق المحرقہ ،ص ، ۳۷۵ )
3۔طبرانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! کہ حضرت لوط علیہ السلام کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے خدا کی خاطر اپے اہل سمیت ہجرت کی۔۔(الصواعق المحرقہ ،ص ، ۳۷۵ )
4۔ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان سے فرمایا اے عثمان! یہ جبریل ہیں جو مجھے بتار ہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ام کلثوم کو رقیہ کے مہر کے مثل پر تیری زوجیّت میں دیا ہے۔ اور اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرنا ۔۔(الصواعق المحرقہ ،ص ، ۳۷۶ )
5۔ترمذی نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے اور ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کا جنت میں ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمان ہے۔۔(الصواعق المحرقہ ،ص ،۳۷۶ )
6۔ابن عساکر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ! کہ عثمان کی شفاعت سے ستّر ہزار ایسے آدمی جنت میں بلا حساب داخل ہوں گے جو آگ کے مستحق ہو چکے ہوں گے ۔۔(الصواعق المحرقہ ،ص ، ۳۷۷ )
7۔ ترمذی اور حاکم نے بیان کیا ہے اور اسے عبد الرحمٰن بن سمرہ سے صحیح قرار دیا ہے کہ حضور ﷺ’’جیش العسرۃ‘‘ کی تیاری فرمارہے تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک ہزار دنیار لے کر آئے اور آپ ﷺکے حجرہ میں انہیں بکھیر دیا ۔ حضور ﷺ ا نہیں الٹنے پلٹنے لگے پھر فرمایا ! عثمان آج کے بعد جو کام کرے گا اس کا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
8۔ترمذی ،ابن ِماجہ،اور حاکم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ! اے عثمان ! اللہ تعالیٰ تجھے (خلافت کی)ایک قمیص پہنائیگا اگر منافقین اس کے اتارنے کا ارادہ کریں تو تم اسے نہ اتارنا ۔یہاں تک کہ تم مجھ سے آ ملو۔(الصواعق المحرقہ ،ص ، ۳۷۷ )
یہ حدیث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت ِحقّہ پر واضح دلیل ہے ۔حدیث میں قمیص سے کنایۃً خلافت ِالٰہیہ مراد لی گئی ہے
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دس خصائل:ابن عساکر نے ابن ثور الضمی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت گیا جب کہ آپ محصور تھے اس وقت اپ نے مجھ سے فرمایا کہ میری دس خصلیتیں اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہیں (۱)میں اسلام قبول کرنے والا چوتھا شخص ہوں(۲)رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کو میرے عقد میں دیا (۳)میں کبھی گانے بجانے میں شریک نہیں ہوا(۴)میں کبھی لہو و لعب میں مشغول نہیں ہوا(۵)میں نے کبھی کسی برائی اور بدی کی تمنا نہیں کی(۶)رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے بعد اپنا سیدھا ہاتھ اپنی شرم گاہ کو نہیں لگایا (۷)اسلام لانے کے بعد میں نے ہر جمعہ کو اللہ کیلئے ایک غلام ازاد کیا اگر اس وقت ممکن نہ ہوا تو بعد میں آزاد کیا (۸)زمانہ جاہلیت یا عہد اسلام میں کبھی زنا کا مرتکب نہیں ہوا(۹)عہد جاہلیت اور زمانہ اسلام میں کبھی چوری نہیں کی(۱۰)رسول خدا صلی اللہ عنہ کے زمانہ کے مطابق میں نے قرآن کو جمع کیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت:حضرت عمر ،فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں چھ صحابیشامل تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ،حضرت علی حضرت طلحہ ،حضرت زبیر ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمان بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کمیٹی میں شامل تھے۔ اس کمیٹی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا۔ یکم محرم 24ھ کو مسندِ خلافت پر بیٹھے اور مدتِ خلافت بارہ سال بارہ دن تھی۔ آپ کے دور خلافت میںایراناور شمالی افریقہ کا کافی علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے محبت:
(1)نزال بن سبرہ سے روایت ہے: کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں دریافت کیاتوآپ نے فرمایا:عثمان تو ملاء اعلیٰ میں “ذوالنورین “کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔آپ رسول اللہ ﷺ کے داماد تھے۔آپ کی زوجیت میں رسول اللہ ﷺ کی دوصاحبزادیاں آئیں۔رسول اللہ ﷺنے آپ کو جنت کی ضمانت عطاء فرمائی۔(الموافقۃ بین اہل البیت والصحابہ)
(2)حضرت عبدالرحمن بن عوف کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے والے سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔(بخاری،باب فضائل الصحابہ)
(3) حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم حضرت عثمانِ غنی کی امامت وخلافت کے معترف اور آپ کے معاونِ خاص تھے۔ابنِ ابی شیبہ نے اپنی سند سے حضرت محمد بن حنفیہ کے واسطے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:”اگرعثمان غنی مجھے وادیِ ضرار جانے کا حکم دیں تومیں آپ کی اطاعت کروں گا”۔(الموافقۃ بین اہل البیت والصحابہ)
(4) حضرت محمد بن حنفیہ سے روایت ہے :کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قاتلین عثمان پر لعنت بھیج رہی ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھالیے اور کہا:میں قاتلین عثمان پر لعنت بھیجتا ہوں۔اے اللہ! ان پر پہاڑی ومیدانی علاقوں میں (جہاں جہاں قاتلین عثمان ہیں)ان پر لعنت نازل فرما۔آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی۔(فضائل الصحابہ ۔حدیث:733)
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : “رحماء بینھم”صحابہ آپس میں شیر وشکرہیں۔(سورت الفتح:29)
تاریخ ِشہادت:شہادت سے ایک رات پہلے سرکار دو عالمﷺ آپ کو خواب میں ملے اور فرمایا:عثمان!” اِنْ شِئْتَ نُصرتَ عَلَیْہِمْ وَاِنْ شِئْتَ اَفْطَرْتَ عِنْدَنَا” یعنی اگر تمہا ری خو اہش ہو تو ان لوگوں کے مقابلے میں تمہا ری امداد کروں اور اگر تم چاہو تو ہما رے پا س آکر روزہ افطارکر و۔آپ نےعرض کی: یا رسولَ اللہﷺ! آپ کے دربارِ پرانوار میں حا ضر ہوکرروزہ افطارکر نا مجھے زیا دہ عزیز ہے ۔
مفسر شہیر محدثِ کبیر حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یہ واقعہ خواب میں نہیں بلکہ بیداری کی حالت میں پیش آیا۔(الحاوی للفتاوی للسیوطی ج۲ص۳۱۵)
جب بلوائی قتل کرنے کیلئے امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے گھر داخل ہوئے تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ قرآن ِمجید کی تلاوت فرما رہے تھے ۔جیسے ہی انہوں نے حملہ کیا تو آپکا خون سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ، 137 ” فَسَیَکْفِیۡکَہُمُ اللہُۚ وَہُوَ السَّمِیۡعُ الْعَلِیۡمُ”پر گرا تو بروزِ قیامت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی گواہی قرآن ِمجید دیگا۔ یہ واقعہ فاجعہ بروز جمعہ 18ذی الحجہ 35ھ کو مدینہ منورہ میں رونما ہوا ۔ وقتِ شہادت آپ کی عمر 88 سال تھی۔ آپ کی قبرِ انور جنت البقیع میں ہے۔
ماخذومراجع: تاریخ الخلفاء۔ الصواعق المحرقہ۔سنن البیہقی۔الحاوی للفتاویٰ۔