نبیرۂ اعلیٰ حضرت ،مفسر اعظم ہند، حضرت علامہ مفتی محمد ابراہیم رضا خان قادری علیہ الرحمہ
تاریخ پیدائش:۔
حضرت مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ کی پیدائش ۱۰؍ ربیع الاول ۱۳۲۵ھ مطابق ۱۹۰۷ء کو ہوئی۔ حجۃ الاسلام کے یہاں یہ پہلی ولادت تھی جس کی وجہ سے پورے گھرانے میں کافی خوشیاں منائی گئیں۔ سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے’’ تحنیک‘‘ جیسی پیاری سنت نبوی کے مطابق چھوہارے کی قانش چبا کر حضرت مفسر اعظم ہند کو کھلوائی۔ استاذ زمن حضرت علامہ حسن رضا خاں کی زبان مبارک سے فی البدیہ ایک مصرعہ جاری ہواجو ولادت مفسر اعظم ہند کا مادۂ تاریخ بن گیایہ اس بات کی دلیل ہے کہ استاذ زمن کو فن تاریخ گوئی میں ملکہ حاصل تھا۔ یہ مصرعہ مندرجہ ذیل ہے۔ ع
علم و عمر اقبال و طالع دے خدا (۱۳۲۵ھ)
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے شاندار اور تایخ ساز عقیقہ کیا جس کا ذکر حیات اعلیٰ حضرت میں نہایت تفصیل سے کیا گیا ہے۔ خاندانی روایت کے مطابق یہ عقیقہ’’ محمد ‘‘نام پر کیا گیا۔ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی صاحب نے اپنی کتاب ’’مفسر اعظم ہند‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ’’ آپ کا نام ابراہیم رضا حجۃ الاسلام نے تجویز فرمایا‘‘لیکن مفتی محمود احمد رفاقتی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب’’ تذکرۂ علمائے اہلسنت‘‘ میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ آپ کا یہ نام اعلیٰ حضرت کے شاگرد و خلیفہ حضرت مولانا سید محمد ابراہیم مدنی جو مدینہ طیبہ کے باشندے تھے اوراعلیٰ حضرت کے شاگرد و خلیفہ حضرت سید حسین مدنی علیہ الرحمہ کے بھائی تھے انہوںنے اپنے نام پر ’’محمد ابراہیم ‘‘تجویز فرمایا تھا۔ دونوں میں تطبیق کی صورت یوں ہوسکتی ہے کہ حجۃ الاسلام کو انہوںنے اس نام کا مشورہ دیا ہو اور پھر آپ نے یہی نام اپنے فرزند کا رکھ دیا ہو۔
تعلیم و تربیت:۔
خاندانی دستور کے مطابق جب آپ کی عمر چار سال چار ماہ چار دن کی ہوئی تو ۱۴؍ شعبان المعظم ۱۳۲۹ھ بروز چہار شنبہ مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ و الرضوان نے علما و مشائخ اور دیگر احباب کی موجودگی میں حضرت مفسر اعظم ہند کی رسم بسم اللہ خوانی ادا کرائی اور اسی موقع پر آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں بیعت فرما کربشرط علم و عمل اجازت و خلافت بھی عطا فرمادی جس کی تصریح حجۃ الاسلام نے اپنے رجسٹرڈ وقف نامہ میں کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اعلیٰ حضرت جیسے قطب وقت نے اپنی ہی زبان فیض ترجمان سے ارشاد فرمایا :’’میرا یہ پوتا میری زبان ہوگا‘‘۔ (مفہوما)
مفسر اعظم ہند نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ و الرضوان کی اہلیہ مکرمہ یعنی اپنی دادی صاحبہ اور اپنی والدہ ماجدہ سے ابتدائی تعلیم ، ناظرۂ قرآن اور اردو کی ابتدائی کتابوں کی تکمیل فرمائی۔ سات سال کی عمر میںیادگار اعلیٰ حضرت جامعہ رضویہ منظر اسلام میں داخل ہوکر اس وقت کے اساتذہ منظر اسلام سے علوم اسلامیہ کی تحصیل فرمائی۔ مشکوٰۃ المصابیح خاص طور حضرت حجۃ الاسلام سے پڑھی۔آپ کے زمانہ تعلیم ہی میں سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۳۴۰ھ ؍ ۱۹۲۱ء میں وصال فرماگئے۔
فراغت و دستار بندی:۔
۱۹؍ سال کی عمر میں ۱۳۴۴ھ ؍ ۱۹۲۵ء میں آپ نے جملہ علوم مروجہ اور درس نظامی میں شامل جملہ فنون کی تکمیل فرمائی۔ حضرت حجۃ الاسلام نے جماعت اہل سنت کے مقتدر علماء و مشائخ کی موجودگی میں آپ کی دستار بندی فرمائی اور اپنی نیابت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔
عقد نکاح:۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کے بڑے صاحبزادے حضرت حجۃ الاسلام اور چھوٹے شہزادے سرکار مفتی ٔ اعظم ہند ہیں۔ قطب وقت اور مجدد عصر سید ی سرکار اعلیٰ حضرت کی زبان مبارک سے یہ بات نکل چکی تھی کہ ع
حامد منی انا من حامد
اس وجہ سے یہ بات تو سو فیصد سچی ہونا ہی تھی کہ اللہ کے نیک اور مقرب بندے اپنے نیک کاموں سے اللہ کا ایسا قرب حاصل کرلیتے ہیں کہ وہ جو کہہ دیں وہیںمثل صبح نمودار ہوجاتا ہے۔ حجۃ الاسلام ہی سے خاندان اعلیٰ حضرت کی بقا لکھی جاچکی تھی۔ یہ سلسلہ خاندان آپ ہی نسل سے چلنا تھا ۔ ایک موقع پر مفسر اعظم ہند کم سنی کے عالم میں اپنے دادا جان اور وقت کے مجدد کی آغوش میں تھے۔ دوسری طرف آپ کے چھوٹے شہزادے حضرت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی کم سن شہزادی بھی مجدد عصر کی بارگاہ میں موجود تھیں۔ دونوں ہی کی عمر بہت کم تھی اسی موقع پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے دونوں شہزادوں کو بلا کر اپنے پوتے اور پوتی دونوں کا نکاح فرما دیا۔ جب مفسر اعظم ہند کی عمرتقریبا ۲۲؍ سال کی ہوئی تو مؤرخہ ۲۶؍ ربیع الآخر بروز بدھ ۱۳۴۷ھ؍ ۱۹۲۸ء آپ کی سہرا بندی کی رسم ادا کی گئی ۔ پھر بارات سرکار مفتیٔ اعظم ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں گئی، رخصتی عمل میں آئی۔نیز ۲۸؍ربیع الآخر بروز جمعہ دعوت ولیمہ کا انعقاد ہوا۔ اس موقع پر شاندار جشن اور ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔ اس جشن شادی کا دعوت نامہ منفرد انداز میں خود حضرت حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ نے منظوم شکل میں تیار فرمایا۔اس جشن کے مادہ تاریخ مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱)تہنیت شادی بلطف الٰہی (۱۳۴۷ھ)
(۲) جشن شادی ابراہیم رضا (۱۹۲۸ء)
مرکز اہلسنت کی ذمہ داریاں اور حجۃ الاسلام کی نیابت:۔
حجۃ الاسلام حضرت علامہ محمد حامد رضا خاں علیہ الرحمہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعدپوری زندگی مرکز اہلسنت خانقاہ رضویہ،درگاہ اعلیٰ حضرت ، رضا مسجداور منظر اسلام کی خدمت انجام دیتے رہے۔مگر جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے مذکورہ بالا تمام اوقاف کے لیے ایک رجسٹرڈ وصیت نامہ تیار کیا جس میں آپ نے اپنے بعد اپنے بڑے شہزادے سرکار مفسر اعظم ہند حضرت مفتی محمد ابراہیم رضا خاں عرف جیلانی میاں علیہ الرحمہ کواپنا جانشین ،نائب مطلق ،خانقاہ رضویہ حامدیہ کا سجادہ نشین ،منظر اسلام کا مہتمم اور رضا مسجد کا متولی نامزد فرمایا۔چنانچہ اس سلسلہ میں ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی اپنی کتاب ’’مفسر اعظم ہند‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’حجۃ الاسلام نے اپنے وصال ۱۷؍جمادی الاول ۱۳۶۳ھ مطابق ۲۳؍مئی ۱۹۴۳ء سے قبل اپنے دونوں صاحبزادگان مفسر اعظم حضرت محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں اور حضرت حماد رضا خاں نعمانی میاں رحمۃ اللہ علیہم کے لیے اپنی خلافت کا اعلان فرما دیا تھا اور اپنی وصیت کے مطابق حضور مفسر اعظم کو اپنا نائب مطلق ،خانقاہ عالیہ رضویہ کا سجادہ نشین اور دارالعلوم منظر اسلام کا مہتمم نامزد فرمایا تھا۔‘‘(مفسر اعظم ہند ص ۱۸)
سرکار حجۃ الاسلام کی اسی وصیت کی قدرے وضاحت کرتے ہوئے مولانا ڈاکٹر محمد اعجاز انجم صاحب لطیفی ؔ استاذ جامعہ رضویہ منظر اسلام اپنی کتاب ’’جہان ریحان‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’۱۹۳۸ء کی شام کاشانۂ اعلیٰ حضرت ،گھر کے تمام افراد چارپائیوں پر تشریف فرما تھے ،حجۃ الاسلام حامد رضا خاں نے فرمایا : میں نے اپنی وصیت تحریر کرا دی ہے۔ تمام موجود اہل خانہ ہمہ تن گوش تھے ۔آپ فرما رہے تھے ’’میرے بعد میرا فرزند اکبر محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں اور بعدہٗ، فرزند اصغر نعمانی میاں اور اس کے بعد ہمارا سجادہ نشین ومتولی ریحان رضا ہوگا‘‘۔ زمانہ حیران تھا کہ ریحان رضا ابھی صرف ۴؍سال کے ہیں اور حجۃ الاسلام نے ریحان رضا کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کی خانقاہ کا سجادہ نشین نامزد کر دیا‘‘۔(جہان ریحان)
مذکورہ بالا اقتباسات میں ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی صاحب مرحوم اور ڈاکٹر اعجاز انجم صاحب لطیفی نے حجۃ الاسلام کی جس رجسٹرڈوصیت کا تذکرہ فرمایا ہے اس رجسٹرڈ وصیت نامہ اور وقف نامہ کی کاپی فقیر راقم الحروف کے پاس موجود ہے۔حضرت حجۃ الاسلام نے مؤرخہ ۳۰؍اگست ۱۹۳۸ ء کویہ وقف نامہ اور وصیت نامہ تحریر فرمایا تھا۔یہ وقف نامہ مؤرخہ ۲؍ستمبر ۱۹۳۸ء کو بریلی تحصیل میں رجسٹرڈ ہوا۔حضرت جیلان میاں علیہ الرحمہ کی جانشینی سے متعلق اس رجسٹرڈ وصیت نامہ میں جو تصریحات ہیں انہیں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔ اس وقف نامہ میں ایک جگہ حضرت حجۃ الاسلام تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’ اتنظامِ تولیت ِخانقاہ شریف:-متولی و سجادہ نشین خانقاہ ہمارے بعد ہمارے دونوں فرزند یکے بعد دیگرے ، ’’اکبر ‘‘ بعدہ ’’اصغر‘‘اور ان کے بعد ہمارا نبیرہ ’’ریحان رضا خاں سلمہ‘‘صاحب سجادہ و متولی ہوگا۔ہمارے خلفِ اکبر’’ ابراہیم رضا خاں عرف جیلانی میاں‘‘ کو حضورپُرنور ’’اعلیٰ حضرت ‘‘قبلہ قدس سرہ نے اپنا’’مجازوماذون‘‘بشرطِ علم فرمایا تھااور خلف اصغر ’’حماد رضا خاں عرف نعمانی میاں ‘‘سلمہ کومجھ مقرِّ اول نے بشرط علم ’’اجازت وخلافت ‘‘دی اور اپنے نبیرہ ’’ریحان رضا خاں‘‘سلمہ کو بھی ’’مجاز و ماذون‘‘کیا اور مجھ مقرِّ اول نے اپنے داماد ’’مولوی تقدس علی خاں ولد سردار ولی خاں‘‘ سلمہ کو بھی ’’مجاز و ماذون ‘‘ کیا ہے‘‘۔(رجسٹرڈ حامدی وقف نامہ)
سرکار مفسر اعظم ہند۱۷؍جمادی الاولیٰ ۱۳۶۲ھ ؍۲۳ مئی ۱۹۴۳ء سے لے کر ۱۱؍صفر ۱۳۸۵ھ؍ ۱۲جون ۱۹۶۵ء تک خانقاہ عالیہ قادریہ رضویہ حامدیہ کے سجادہ نشین و متولی ، رضا مسجد کے متولی اور منظر اسلام کے مہتمم اور دیگراوقاف کے متولی رہے۔
دینی و علمی خدمات:۔آپ نے اپنے دور میں مرکز اہلسنت کی بے مثال خدمات انجام دیں ۔منظر اسلام میں مہتمم کے منصب پر رہ کر طالبان علوم نبویہ کی علمی پیاس بھی بجھائی اور اپنے دعوت و ارشاد کے دوروں سے سنیت کو فروغ بھی بخشا۔ اعلیٰ حضرت کے پیغام کی ترسیل و تبلیغ کے لئے آپ نے ماہنامہ اعلیٰ حضرت کا دسمبر ۱۹۶۰ء میں اجراء فرمایا۔ علامہ تقدس علی خاں علیہ الرحمہ جب ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے تو منظر اسلام کا انتظام و انصرام ڈومنی مسجد، محلہ ذخیرہ بریلی شریف کے رہنے والے فیاض نامی شخص کے حوالے کرگئے ۔اس شخص نے وقف بورڈ کے ذریعہ منظر اسلام کی تولیت کو اپنی تحویل میں لے لیا۔۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۲ء کے درمیان وقف بورڈ میں یہ مقدمہ چلتا رہا۔ سروے انسپکٹر وقف بورڈ کے ذریعہ تفتیش و انکوائری ہوئی۔ اس نے حضرت مفسر اعظم ہند کی حمایت میں اپنی رپورٹ پیش کی تب وقف بورڈ نے یہ تولیت آپ کے حوالے کردی۔ وقف بورڈ کے اس مقدمہ کے درمیان حضرت مفسر اعظم ہند کو بے شمار تکلیفوں ، ذہنی الجھنوں اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا آخر کار اپنے اجداد کرام کی اس نشانی کو آپ نے تباہ و برباد ہونے سے بچا لیا۔ منظر اسلام جس حالت میں آپ کے پاس آیا وہ ناقابل بیان ہے۔ منظر اسلام میں تعلیمی سلسلہ موقوف ہوگیا تھا۔ آپ نے نہایت جدوجہد کے ذریعہ دوبارہ اس کو از سر نو شروع کیا۔ ذرائع آمدنی ختم ہوگئے تھے تب آپ نے اپنے نذرانے، گھر کے زیورات اورآبائی زمینوں کا غلہ وغیرہ سب قربان کرکے اس کے تعلیمی نظام کو استحکام بخشا۔ اعلیٰ حضرت کی کتابیں چھپواتے۔ ان کتابوں سے جو آمدنی ہوتی اسے منظر اسلام پر خرچ کردیتے۔ اپنی کتابیں لکھ کر شائع کرتے اور ان سے آنے والی رقم کو بھی منظر اسلام کے مصارف میں صرف فرمادیتے ۔
منظر اسلام کے ذرائع آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے آپ بیماری کی حالت میں بھی دور دراز کے سفر کرتے مگر اعلیٰ حضرت کی اس علمی یاد گار پر خزاں کا موسم نہ آنے دیتے ۔اس سلسلے میں آپ نے کیسی مشقتیں برداشت کیں اس کا اندازہ ماہنامہ اعلیٰ حضرت میں درج ’’ کوائف دار العلوم منظر اسلام‘‘ کی سرخی کے ذیل میں دی گئی اس رپورٹ سے لگا سکتے ہیں۔
’’باوجود سخت علالت کے نبیرۂ اعلیٰ حضرت (مفسر اعظم ہند)نے دعوت عرس پکھریرا خانقاہ رحمانی پر بنارس ہوتے ہوئے مظفر پور کا سفر کیا۔ اس سفر کا داعیہ یہ تھا کہ دستار بندی کے اس جلسے میں ۳۰؍ طلبہ کی دستار بندی ہونا تھی۔ ۲۸؍ طلبہ درجہ حدیث، دو حفاظ اور ۲۸؍ طلبہ کی دستار کے ساتھ ’’ عبا پوشی ‘‘ کرنا تھی۔ بریلی میں حاسدین کی کشمکش سے انتظام مشکل تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اہل بنارس نے اس بات کو بخوشی برداشت کیاحالانکہ انہیں اور کام بھی تھے۔ ایک مقدمہ بھی تھا جو دیوبندی فتنہ کی پیداوار ہے۔ مسجد اہل سنت پر جس کی آمدنی اچھی ہے تولیت کا(دیابنہ بنارس کی طرف سے) دعویٰ ہے۔ اہل بنارس کا خود مدرسہ موجود ہے۔ ’’ مدرسہ حمیدیہ رضویہ‘‘ پھر بھی اہل سنت بنارس نے جامعہ اعلیٰ حضرت (منظر اسلام)کی امداد کی کہ جبہ و دستار کا صرفہ اپنے ذمہ لے لیا۔ اس سفر میں ایک صاحب خیر نے پانچ سو روپئے بھی نذر جامعہ اعلیٰ حضرت کئے‘‘۔(ماہنامہ اعلیٰ حضرت دسمبر ۱۹۶۲ءرجب المرجب ۱۳۶۲ھ صفحہ نمبر ۳۰)
اس سفر میں آپ کی علالت کس قدر تھی اس کا اندازہ ذیل کے اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے۔
’’اس سفر میں دو مرتبہ خطرے سے دوچار ہونا پڑا۔ پھر بھی سفر جاری رہا ۔ انجکشنوں سے تدارک کیا گیا۔ پوکھریرا دیہات ہے( ضلع مظفر پور بہار) یہاں خانقاہ رحمانی کا عرس تھا یہ خانقاہ اس اطراف میں مرکز اہل سنت ہے۔ نبیرۂ اعلیٰ حضرت (مفسر اعظم ہند) کی آمد پر یہاں ہمیشہ بڑا اجتماع ہوا کرتا ہے چنانچہ ہوا۔ زبان بندی(علالت اس قدر تھی کہ زبان بند ہوگئی تھی مگر منظر اسلام کی وجہ سے پھر بھی سفر کیا) کی وجہ سے تقریر سے معذوری تھی پھر بھی تقریر(تحریری شکل میں سنا کر) ہوئی ۔ تحریری تقریر کو مولانا سلیمان صاحب باتھوی ، مدرس مدرسہ رحمانیہ نے سنائی۔ الحمد للہ! اس سفر کا منشا(طلبہ کے جبہ و دستار کے انتظام کا مقصد) پور اہوا۔ اس سپاہی کی مثال ایک مجاہد کی طرح ہے۔ جیسے اس کا داہنا ہاتھ کٹ گیا ہو وہ بائیں ہاتھ سے جنگ کررہا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف ہے اسی طرح یہ بھی ۔ زبان سے تقریر نہیں ہورہی تھی وہ ماؤف ہے تو قلم سے وہی کرتا رہا جو زبان کرتی تھی‘‘۔ (ماہنامہ اعلیٰ حضرت دسمبر ۱۹۶۲ءرجب المرجب ۱۳۶۲ھ صفحہ نمبر ۳۰)
ماہنامہ اعلیٰ حضرت کا اجراء:۔
اعلیٰ حضرت کوصحافت کی اہمیت کا بخوبی احساس تھا۔ مسلمانوںکی فلاح وبہبود اور ان کی تعمیر و ترقی کے لئے آپ نے جو دس نکاتی فارمولہ سنیوں کے سامنے پیش فرمایا تھا اس میں ’’ اپنے رسائل و جرائد ہوں(مفہوما)‘‘ یہ بھی ایک شق تھی جو بتاتی ہے کہ اعلیٰ حضرت کی نگاہ میں صحافت کی کیا اہمیت تھی۔ آپ نے صرف منصوبہ ہی نہیں پیش فرمایا بلکہ عملی اقدام بھی کئے۔ تحفہ حنفیہ پٹنہ، الفقیہ امرتسر اور دبدبہ سکندری جیسے صحافتی ستاروں کو روشن و منور رکھنے کے لئے ہر طرح سے مدد کی ۔ خود بریلی شریف میں آپ کے زمانے میں آپ کے چھوٹے بھائی استاذ زمن کی سرپرستی میں دو ماہنامہ اور ایک اخبار جاری ہوئے تھے۔ ماہنامہ’’ قہر الدیان‘‘ ، ماہنامہ’’ بہاربے خزاں‘‘ اور ہفت روزہ اخبار ’’روز افزوں‘‘ بہار بے خزاںکا رسم اجراء فروری ۱۹۰۳ء میں اور اخبار روز افزوں کا اجراء ۱۹۰۲ء میں ہوا تھا۔ ان کے علاوہ۱۳۳۸ھ میں ماہنامہ الرضاجاری ہوا۔ جس کے مدیر علامہ حسنین رضا خاں علیہ الرحمہ تھے۔ اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد جب یہ ماہنامہ بند ہوگیا تو حضرت حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ نے ۱۳۴۵ھ میں ماہنامہ یاد گار رضا جاری فرمایا۔ یہ ماہنامہ بھی حضرت حجۃ الاسلام کے وصال (۱۹۴۳ء ) کے بعد بند ہوگیا۔۱۹۴۳ء سے ۱۹۶۰ ء تک مکمل خاموشی رہی۔ حضرت مفسر اعظم ہند کو اس کا بہت احساس تھا۔ وہ صحافتی اہمیت و افادیت کو بخوبی جانتے تھے۔ منظر اسلام کی تعمیر و ترقی کے لئے بھی آپ نے اس ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ عقائد اہلسنت کی ترویج و اشاعت کے میدان میں بھی ایک ماہنامہ کی شدید ضرورت آپ کے مد نظر تھی۔ اس لئے آپ نے جمادی الثانی ۱۳۸۰ھ دسمبر ۱۹۶۰ء میں فروغ اہل سنت ، اشاعت افکار رضا اور منظر اسلام کے عروج و ارتقا کے لیے’’ماہنامہ اعلیٰ حضرت‘‘ جاری فرمایا ۔ اس کے پہلے شمارے میں ماہنامہ کے اجراء کے محرکات کی وضاحت یوں فرمائی:
’’عرصے سے ایک ماہنامہ رسالے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ اہلسنت کے پاس نہ رسائل و اخبارات خصوصاً ہندوستان میں، اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ہر طرف باطل کی سیاہ کالی گھٹائیں چھائی چلی جارہی ہیں اور اس کی کوئی امداد نہیں ہورہی ہے اس سلسلے میں کرنے کی ضروری چیز روزانہ اخبار، ماہنامہ رسائل اور مدارس اہلسنت کی بڑے پیمانے پر امداد ہے‘‘۔
کچھ آگے فرماتے ہیں:
’’اس ضرورت کے پیش نظر یہ رسالہ شائع کیا جارہا ہے۔بہرحال ضرور شائع ہونا ہے۔خدا نے چاہا مستقل شائع ہوگا۔یہ رسالہ ایسے ہی چلے گا جیسا دارالعلوم۔ماہنامہ اعلیٰ حضرت ان شاء اللہ خبرنامہ ہی ہوگا۔ابھی تو ہلا ل ہی ہے۔ایک دن آئے گا جب یہ ہلال بدر کامل ہو جائے گا۔اور یہ ہو کر رہے گا ‘‘۔(بحوالہ صدسالہ نمبردوسری قسط ص ۱۵۶)
تدریسی ، خانقاہی اور دعوت و ارشاد کے اسفار کی ذمہ داریوںکے باوجود آپ مسلسل ماہنامہ اعلیٰ حضرت میں قرآن و حدیث کی تفسیر وتشریح پر مشتمل عمدہ مضامین تحریر فرماتے ۔
منظراسلام کی تعمیر و ترقی میں ماہنامہ اعلی حضرت کا اہم کردار :۔
چونکہ آپ کا بنیادی نصب العین اعلیٰ حضرت کی علمی یادگار منظر اسلام کے روشن و تابناک ماضی کی بحالی اور اس کی عظمت رفتہ کی بازیافت تھا۔ اس لئے ضرورت تھی کہ یادگار رضا کی بقا اور اس کی تعمیر و ترقی کے لئے ایک وسیع لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اس کو عملی جامہ پہنانے اور اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لئے چوطرفہ ایک عالمگیر یا کم ازکم ملک گیر تحریک چلائی جائے چنانچہ اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے حضورمفسراعظم ہند مدرسہ منظر اسلام کی تعمیر و ترقی کے لئے عملی طور پر کمر بستہ ہو کر سرفروشانہ طریقہ سے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں۔خود ہی صدر مدرس ہیں،خود ہی مہتمم،خود ہی محصل ہیں،خود ہی مبلغ،خود ہی مدیر ہیں اور خود ہی منتظم۔
کبھی درسگاہ میں علم و فن کے موتی لٹا رہے ہیں تو کبھی میدان مناظرہ میں رازی و غزالی کے جلوے،علالت کے باوجود کبھی تو دوردراز کے دورے فرما رہے ہیں تو کبھی پوری رات منظر اسلام کی آبیاری،غرض کہ ایک جذبہ ہے۔ایک عزم ہے،منظراسلام کو اوج ثریا پر پہنچانا ہے،اعلی حضرت کی امانت کو بچانا ہے۔ اس کے لئے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور اس میدان میں جب اس بات کا احساس ہوا کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے لٹریچر کا ہونا بہت ضروری ہے۔قلم کی طاقت وہ طاقت ہے جس نے حکومتوں کی بساطوں کو راتوں رات الٹ کر رکھ دیا،تحریر کی اثر انگیزی نے دیکھتے ہی دیکھتے قلوب و اذہان کو مسخر کر لیا تو آپ نے انتہائی کس مپرسی کی حالت میں عقائد اہل سنت کے تحفظ ،مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت اور جامعہ رضویہ منظر اسلام کی تعمیر و ترقی کے لئے اس ماہنامہ کو عروج تک پہنچانے کے لئے بے پناہ جدوجہد بھی کی اور قربانیاں بھی پیش فرمائیں۔ اس کے ذریعہ آپ نے منظر اسلام کو خوب خوب استحکام بخشا۔
منظراسلام کی تعمیر و ترقی کے لیے اپیلیں، ماہنامہ اعلیحضرت کے پلیٹ فارم سے:
ماہنامہ کے قیام کے بعد منظر اسلام کے توسیعی خاکہ میں رنگ بھرنا کافی آسان ہوگیا۔اس میں کافی تیزی آگئی چنانچہ حضور مفسر اعظم ہند کے زمانے میں جہاں ایک طرف باقاعدہ منظر اسلام کی تعمیر و ترقی پر مشتمل سالانہ رپورٹ، رمضان، عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے موقعوں پر زکوۃ، صدقات اور چرم قربانی کی اپیل جاری کی جاتی تو وہیں دوسری طرف چندہ دہندگان کی فہرست اور دارالعلوم کے احوال و کوائف کے نام سے روداد چمن بھی ہوتی اور آمدوخرچ کا گوشوارہ بھی ۔ رسالہ اور دارالعلوم کے تعاون کے لئے ماہنامہ اعلی حضرت کی دردمندانہ یہ اپیل تو ذرا دیکھیں کہ جس میں حضرت مفسر اعظم ہند نے مرکز اہلسنت، خانقاہ رضویہ اور منظر اسلام کے تعلق سے اپنے جذبہ ، لگن ، تڑپ، ایثار، قربانی اور مرکز کے لئے مالی قربانی کے ساتھ صحت و توانی کی قربانی تک دینے کی ایک ایسی جامع روداد بیان فرمائی ہے جسے آپ کی دینی و مسلکی خدمات کا مکمل آئینہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس اپیل کو ذرا غور سے ملاحظہ فرمائیں:
’’یہ آپ کو کرنا ہے‘‘ مگر کر نہیں رہے ۔اس رسالے کی اشاعت میں توسیع کرنا ہے۔علاوہ ازیں اپنا رسالہ دوسروں کو پڑھنے کے لیے دینا ہے، اپنے اور بچوں کو زور دے کر پڑھوانا ہے،اس کے مضامین سنانا ہے۔خصوصا ائمہ مساجد کو یہ فرض ادا کرنا ہے۔جہاں لوگ عادتاً نشست رکھتے ہیں وہاں اس کے سنانے کے لئے وقت مقرر کرنا ہے اور سنانا ہے۔تبلیغ کے خیال سے اسے ہر اس جگہ پہنچانا ہے جہاں شیخ نجدی کا اڈا ہے یا اس کا گزر ہے یا اس کا اثر پڑ رہا ہے۔دارالعلوم اس رسالہ کا مالی بار برداشت کررہا ہے جو مارچ و اپریل ۱۹۶۲ء کے ماہ کا کم و بیش ۵۵۰/ روپے ہے۔ اس لئے دارالعلوم کی مالی امداد کرنا ہے ۔مستقل، مسلسل۔ فطرہ، زکاۃ، پوست قربانی،زائد سے زائد دارالعلوم کو دینا ہے۔دوسروں سے لینا ہے۔ غلہ کی زکاۃ سے زائد سے زائد دارالعلوم کی اعانت کرنا ہے۔رسیدات ایک روپیہ، آٹھ آنے، چارآنے، دو آنے والی تیار ہو چکی ہیں۔ ان رسیدات کو طلب کریں، اور لوگوں سے حسب حیثیت لے کر رسید دیں اور دارالعلوم کو روانہ کریں یہ آپ کو کرنا ہے۔یہاں علم وعمل، معرفت و اخلاص و نعت نبی کی شیریں کھجوریں اور دشمنان رسول کے لئے پتوں کی نوک پر نوکیلے کانٹے سب کچھ موجود ہے۔مگر نہیں ہے مال دنیا اور نہ آپ کا وہ تعاون جس کی ضرورت ہے۔اگر تمام قارئین رسالہ حمیت سے کام لیں اور ماہانہ ۴/۸کے ٹکٹ روانہ کرتے رہیں تو بھی ایک کثیر رقم ماہانہ جمع ہو سکتی ہے اور یہ پریشانیاں دور ہو سکتی ہیں۔ یہ وقت پوست چرم قربانی کی قیمت روانہ کرنے کا ہے زائد سے زائد سعی کریں یہ آپ کو کرنا ہے ۔نہ کرنا افسوسناک اور شرمناک ہے ’’ولینصرن اللہ من ینصرہ‘‘
(قرآن شریف)اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی (اس کے دین کی)مدد کرے گا۔۔۔۔۔۔۔ان اپیلوں کو سنی ان سنی مت کردو۔اور انہیں ضائع نہ کرو۔ بے عملی کو ترک کرد۔ عمل کرو عمل! سعی کرو سعی !یہ کرنا ہے۔ مگر کر نہیں رہے ہو! رسالہ کی اشاعت کو تین ہزار ماہانہ تک پہنچا دیجئے۔اگر صرف ایک خریدار ایک صا حب دیں تو یہ ہوسکتا ہے اور مدرسہ کی ماہانہ آمدنی کو تین ہزار ماہانہ تک پہنچادیجیے۔یہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح کہ ہر ایک خریدار اس وقت کہ ۱۵۰۰/ اشاعت ہے دو روپئے ماہانہ کی امداد کریں۔ کوئی با ہم۔ جیسا چاہے کرے ۔مگر ہماری طرف سے درخواست ہے کہ کم از کم ایک روپیہ ماہانہ کی امداد فرمائیں۔غور فرمائیے!ہمارے اخلاص و محنت پر،قرضۂ مہتمم ذمۂ مدرسہ ۲۳۷۰۵؍ہے جو کب لینا ہے؟۔جب مدرسہ اس قابل ہو! وہ آج تک اس قابل نہ ہوا۔ نہ بظاہر امید ہے۔لہذا امید وصول نہیں الّا اس صورت میں کہ خدا نہ کردہ کوئی سخت احتیاط ہو تو کچھ قدر قلیل لے لیا جائے۔(حضرت مفسر اعظم کا وہ قرضہ جو دار العلوم کے ذمہ تھا آپ کی آخری سانس تک مدرسہ کے ذمہ ہی باقی رہاکبھی ادا نہ ہوسکا۔ بریلوی) اس طرف سے اہتمام۔درس، رسالہ کے مضامین سب بلامعاوضہ ہو رہا ہے۔اگر اس سب کا معاوضہ لیا جاتا تو خانقاہ سے لے کر یہ سب خدمات ڈھائی تین سو روپے ماہوار میں انجام پاتیں۔مگر باوجود ان خدمات بلامعاوضہ کے پھر بھی ضرورت پڑنے پر اپنا پیسہ بھی بے دریغ خرچ ہوتا رہا ہے۔اور اتنی مشکلات و پریشانیاں اس سلسلے میں برداشت کی گئی ہیں جو علالت ومرض الموت کا باعث بن گئی ہیں۔
(ماہنامہ اعلی حضرت شمارہ جون ۱۹۶۲ء ص ۱۳،۱۴)
یہ وہ درد مندانہ اپیل ہے جو ذرا سی بھی دینی حمیت رکھنے والے کی رگ حمیت پھڑکا دینے کے لیے کافی ہے۔ جس میں ایک طرف رسالہ کا درد ہے تو دوسری طرف دار العلوم منظر اسلام کی تعمیر وترقی کی تڑپ،اپنا ایثار بھی ہے تو دوسروں سے ایثار کی درخواست بھی۔
اسی اپیل کے ساتھ حضورمفسراعظم ہند نے ہر شمارے کے ساتھ ایک روپیہ آٹھ آنے چارآنے اور دو آنے کی رسیدیںمنسلک کرکے بھیجنے کا بھی انتظام کیا تھا۔ اس وقت جو رسیدیں راقم کو ملیں ان میں مندرجہ ذیل یہ مضمون اور چندہ دہندگان کی طرف سے یہ عہد تھا کہ:
”رسید دارالعلوم منظر اسلام محلہ سوداگران بریلی شریف۔دینی خدمات، درس قرآن وحدیث اور ماہنامہ اعلیحضرت کی مالی اعانت کے لیے ، خصوصی تعمیر وغیرہ کے لیے۔ سالانہ، ماہانہ یا جیسا موقع ہو،اکثر مدد کرتا رہوں گا‘‘۔(رسید منسلک ماہنامہ اعلیحضرت شمارہ جون ۱۹۶۲ء)
کوائف دارالعلوم کے عنوان سے دارالعلوم کی تعمیری پیش رفت کے سلسلے میں یہ صراحت ملتی ہے:
دارالعلوم کی بعض دوکانات جو بوسیدہ اور پرانی ہوکر گر چکی تھیں اب ان کی تعمیر ہو رہی ہے۔اگرچہ یہ کام بہت بڑا ہے مگر تھوڑا تھوڑا اور ضروری ضروری۔ اہم فالاھم کے اصول پر آہستہ آہستہ ہو رہا ہے۔گزشتہ سال ایک مکان بن کر تیار ہوا اور اس سال یہ دوکان تعمیر ہو رہی ہے۔دوکانات تعمیر ہونا اشد ضروری ہے اور ایک مکان کی خریداری اشد ضروری ہے۔کتابوں کا بھی آرڈر گیا ہے۔۶۰۰؍روپئے کی کتابیں فورا خریدی جارہی ہیں جبکہ شدید حاجت ۱۰۰۰؍روپئے کی کتابوں کی تھی۔(ماہنامہ اعلیحضرت شمارہ جون ۱۹۶۲ء :ص ۳۰)
”دارالعلوم کی تعمیر ہو رہی ہے ”کے عنوان سے یہ اپیل بھی پڑھے جانے کے لائق ہے۔
”یہ تعمیر کا سلسلہ، دوکا نات، مکانات اور اصل دارالعلوم کی عمارت کی تعمیر سے شروع ہو رہا ہے۔کام جاری ہے لہذا اہل الخیر اور ناظرین رسالہ سے گذارش ہے کہ وہ رسیدات چاک کرکے دارالعلوم کے دفتر میں روانہ فرما دیں مع اس رقم کے جو رسید کے متعلق ہو اور اس کے لیے خود عنایت فرمائیں اور دوسروں کو توجہ دلائیں۔ دارالعلوم کو مالی مشکلات کا سامنا ہے اور یہ اس لئے کہ اس کو بعض صاحبان کی مخالفانہ اور معاندانہ سرگرمیوں سے مستقل تکلیف ہے۔ چنانچہ اس وقت پوست قربانی میں دارالعلوم کو ایک پوست بالتقابل دس کے مل سکی ہے اور باوجود ان عظیم مصیبتوں کے اعلیحضرت کا دار العلوم اہل باطل دیوبندیوں اور وہابیوں کے مقابل سینہ تانے ہوئے آگے ہی بڑھ رہا ہے اگر چہ اس کی پیٹھ میں اور بغل میں خنجربھونکا جارہا ہے۔ فقیر ابراہیم رضاخان عفی عنہ(ماہنامہ اعلی حضرت شمارہ جون ۱۹۶۲ء، آخری صفحہ)
ان اپیلوں کو پڑھ کر ہر صاحب فکر و دانش بخوبی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ حضرت مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ نے مرکز اہلسنت کو استحکام بخشنے، خانقاہ رضویہ کو عروج تک پہنچانے ، منظر اسلام کے تعلیمی اور تعمیری ڈھانچے کو طاقتور بنانے اور اس کے ترقیاتی خاکہ میں رنگ بھرنے میں کس قدر محنت ، مشقت، جد وجہد اور کوشش کی ہے۔آپ کی اسی مخلصانہ لگن کا نتیجہ تھا کہ اللہ رب العزت نے منظر اسلام کو اس کی عظمت رفتہ دوبارہ عطا فرمائی اور اعلیٰ حضرت کا یہ گلستانِ علم وفن پھر سے پر بہار ہوگیا۔
لسان رضا :۔اعلیٰ حضرت نے آپ کو اپنی زبان فرمایا تھا۔ آپ کی زبان میں بہت تاثیر تھی۔ آپ مستجاب الدعوات تھے۔ آپ کی دعاؤں کی مقبولیت کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تقریروں، تحریروں اور تدریس سے مسلک و مرکز کو بہت فائدہ پہونچا ۔ آپ کی کتابیں نہایت مفید اور عوام و خواص کے لئے دلچسپی سے پڑھے جانے کا باعث ہیں۔ ماہنامہ اعلیٰ حضرت میں شائع ہونے والے آپ کے مقالات میں جو علمی نکات ہیں وہ بلاشبہ پڑھے جانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تقریبا ۱۵؍ کتابیں آپ نے تصنیف فرمائیں۔ زیادہ تر چھوٹے چھوٹے رسائل کی صورت میں ہیں۔کمیت کے بجائے آپ کیفیت پر نگاہ رکھتے تھے۔ آپ کے اکثر رسائل پرالحمد للہ ! راقم کافی کام کرچکا ہے۔ ارادہ تھا کہ صد سالہ عرس رضوی کے موقع سے منظر عام پر لائے جائیں۔کمپوزنگ ہوچکی ہے۔ کوشش یہی ہے کہ اسی موقع پر آجائیں۔ آپ کے جتنے مقالات ماہنامہ اعلیٰ حضرت میں شائع ہوئے تھے ان میں اکثر کی راقم کمپوزنگ کرا چکا ہے۔بہر کیف بات چل رہی تھی کہ آپ کی زبان میں بہت تاثیر تھی اور اس کی وجہ اعلیٰ حضرت کا وہ جملہ ہے جسے مفتی رفیق احمد صاحب عباسی امروہی ثم دہلوی نے بیان فرمایاجو ماہنامہ اعلیٰ حضرت میں شائع ہوچکا ہے۔اس پر جو سرخی ہے وہ یوں ہے ’’ اعلیٰ حضرت کی پیش گوئی‘‘۔’’از: رفیق احمد صاحب عباسی (من) مفتیان امروہوی ثم الدہلوی‘‘
اس سرخی کے ساتھ ان کا جوآنکھوں دیکھا واقعہ ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
’’ایک مرتبہ میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ موقع دستار بندی کے جلسہ کا تھا مدرسہ منظر اسلام کے ۔اور میں اعلیٰ حضرت کے دسترخوان پہ حاضر تھا۔ یہ مری قسمت تھی کہ اعلیٰ حضرت نے مجھے ہمراہ کھانا کھلایا۔ اور بہت سے علما موجود تھے۔ حضرت مولانا ابراہیم رضا خاں صاحب جیلانی میاں مکان سے باہر تشریف لے آئے۔ یہ ان کے بچپن کا زمانہ تھا۔ میں وہیں اعلیٰ حضرت کے دسترخوان پر سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ جس وقت جیلانی میاں صاحب آپ کے قریب آئے تو (اعلیٰ حضرت نے) اپنا دست مبارک ان کے سر پر رکھ کر فرمایا کہ ’’ یہ ثانی احمد رضا ہے‘‘۔ خدائے تعالیٰ کے فضل وکرم سے وہی خوبیاں آج نمایاں ہیں۔ آثار دعائیہ یاد کیجئے ؎
یہ دعا ہے ۔یہ دعا ہے۔یہ دعا!
تیرا اور میرا خدا۔(اے) احمد رضا!
تیری نسل پاک سے پیدا کرے
کوئی تجھ سا دوسرا احمد رضا
(ماہنامہ اعلیٰ حضرت دسمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۱۲)
ایک ضروری وضاحت:۔مذکورہ بالارباعی کی کتابت و تحریرمیں تحریف کرتے ہوئے وہابیہ ودیابنہ خبثا ء نے صرف پہلا شعر نقل کیا اور ’’ تیرا اور میرا خدا‘‘ کے بعد ماہنامہ اعلیٰ حضرت میں جو ڈیش(۔) لگا ہوا تھا وہ اڑا دیا اور مفہوم یہ گڑھا کہ بریلوی لوگ احمد رضا کو (معاذ اللہ ) خدا کہتے ہیں۔ حالانکہ ان خبیثوں کو بہ خوبی یہ معلوم ہے کہ رباعی کا پورا مفہوم چاروں مصرعوں سے مل کر پورا ہوتا ہے۔ نیز جو ڈیش لگایا گیا تھا وہ بھی ’’تیرا اور میرا خدا‘‘ والے جملے کو ’’ احمد رضا‘‘ والے جملے سے منفصل کرنے کے لئے تھا۔ اس دعائیہ رباعی کا مفہوم یہ ہے کہ : ’’شاعر اپنی تمنا کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعائیہ انداز میں پیش کرتے ہوئے عرض کررہا ہے کہ اے امام احمد رضا! آپ کا اور میرا خدائے ذو الجلال آپ کی نسل سے آپ ہی کے مثل کوئی دوسرا احمد رضا پیدا کردے۔ یہی ہماری ہر وقت کی دعا ہے‘‘۔
وصال:۔اپنے علم وفن کی خوشبو بکھیرتا رضا کا یہ شگفتہ پھول مؤرخہ ۱۱؍ صفر المظفر ۱۳۸۵ھ ؍ مطابق ۱۲؍ جون ۱۹۶۵ء بروز ہفتہ بعد نماز فجر (جبکہ آپ فجر کی نماز ادا کرچکے تھے اور اوراد و ظائف میںمصروف تھے ) تقریبا سات بجے اپنے لبہائے مبارکہ پر تبسم سجائے اس دنیاسے روپوش ہوگیامگر ان کے علم و فن ، ان کے ذریعہ مذہب و مسلک ، دین و سنیت اور مرکز و ملت کی ناقابل فراموش خدمات کی خوشبو سے آج بھی اہل سنت کے عوام و خواص اپنے قلوب و اذہان معطر کررہے ہیں۔مورخہ ۱۲؍ صفر المظفرمطابق ۱۳؍ جون بروز اتوار تقریبا ۸؍ بجے صبح آپ کی نماز جنازہ اسلامیہ انٹر کالج بریلی کے میدان میں ہوئی۔ تقریبا ساڑھے نو بجے صبح کو سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار مبارک کی مشرقی جانب آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
اولاد:۔اللہ رب العزت نے آپ کو پانچ شہزادوں اور تین شہزادیوں کی نعمت سے نواز اتھا۔ شہزادگان کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) ریحا ن ملت حضرت علامہ ریحان رضا خاں علیہ الرحمہ۔
(۲)مولانا محمد تنویر رضا خاں صاحب قبلہ (آپ ۷۰؍کی دہائی میں مفقود الخبر ہوگئے۔ آج تک آپ کا کہیں پتہ و نشان نہ لگ پایا۔ آپ پر جذب و تصوف کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ آپ کا ابھی عقد نکاح بھی نہ ہوا تھا۔
(۳) تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری علیہ الرحمہ۔
(۴) قمر ملت حضرت علامہ محمد قمر رضا خاں علیہ الرحمہ
(۵) نبیرۂ اعلیٰ حضرت پیر طریقت حضرت علامہ محمد منان رضا خاں منانی میاں صاحب مد ظلہ ۔
آپ کے شہزادوں میںسے اس وقت صرف حضرت منانی میاں صاحب قبلہ مدظلہ با حیات ہیں۔ نیزتینوں شہزادیوںکا بھی وصال ہوچکا ہے۔
تصانیف: آپ نے اپنے بعد مندرجہ ذیل تصانیف یاد گار چھوڑی ہیں۔
(۱) ترجمہ تحفۂ حنفیہ (۲) ترجمہ الدرر السنیہ
(۳) نعمۃ اللہ
(۴) رحمۃ اللہ
(۵) ذکر اللہ
(۶) حجۃ اللہ
(۷) فضائل درود شریف
(۸) تفسیر سورۂ بلد
(۹) تشریح قصیدۂ نعمانیہ
(۱۰) زیارت قبور
(۱۱) نور الصفاء
(۱۲) تفسیر آیات متشابہات
(۱۳) گلزار احادیث
(۱۵) چہل حدیث۔
از:مفتی محمد سلیم بریلوی