فیضِ ملّت حضرت علامہ مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


نام ونسب: اسم گرامی:حضرت علامہ مولانا فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔ کنیت: ابوالصالح۔ لقب: فیضِ ملت،محدث بہاولپوری،مصنّفِ اعظم،صاحبِ تصانیفِ کثیرہ۔

سلسلۂ نسب اس طرح ہے: حضرت علامہ مولانا فیض احمد اویسی بن مولانا نوراحمد بن مولانا محمدحامد بن محمد کمال علیہم الرحمۃ والرحمٰن۔آپ کا تعلّق قوم ’’لاڑ‘‘ سے ہے۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضورﷺ کےچچا محترم سیّدنا عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ تک منتہی ہوتاہے،اس لیے نسبتاً  ’’عباسی‘‘ ہیں۔(تعارف علمائے اہلِ سنّت: ص40؛ مظلوم مصنّف، ص12)

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادتِ باسعادت 1351ھ مطابق 1932ء کو گاؤں ’’حامد آباد‘‘ تحصیل خان پور،ضلع رحیم یارخان، پنجاب پاکستان میں ہوئی۔(تعارف علمائے اہلِ سنّت:40)

تحصیلِ علم: والدِ گرامی دینی علوم سے بہرہ ور تھے،ابتدائی دینی تعلیم گھرپرحاصل کی،پھر اپنے قریبی قصبہ ترنڈہ میرخان میں گورنمنٹ پرائمری اسکول میں داخل ہوئےاورپانچ جماعت تک اسکول کی تعلیم حاصل کی اور 1942ء میں پرائمری کاامتحان پاس کیا۔ والدِ گرامی کی خواہش کےمطابق حفظِ قرآن مجید کےلیے حافظ جان محمد صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے،اوران سےآٹھ پارے حفظ کیے، اورپھر مولانا حافظ سراج احمد علیہ الرحمۃ سے اٹھارہ پارے حفظ کیے،اور خیرپور ٹامیوالی میں مولانا حافظ غلام یسین علیہ الرحمۃ سے1947ء میں مکمّل قرآنِ مجید حفظ کیا۔ آپ فرماتے ہیں: میں نے1947ء کے سال پہلی مرتبہ تراویح کی صورت میں قرآن مجید سنایا، اور 27؍ویں شب ختم قرآن کی تقریب بھی تھی اور قیام پاکستان کی خوشی بھی۔ حفظِ قرآن کےبعد درسِ نظامی کاآغاز کیا، فارسی کی ابتدائی کتب مولانا اللہ بخش علیہ الرحمۃ سے پڑھیں،اور صرف ونحو،ہدایہ،مختصر المعانی،شرحِ جامی وغیرہ ،امام الواعظین،واعظِ شیریں بیاں،عاشقِ رسولﷺ،حضرت علامہ مولانا خورشید احمد فیضی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہسےپڑھیں،بقیہ کتب علامہ مولانا عبدالکریم علیہ الرحمۃ سےپڑھیں،1952ء کوجامعہ رضویہ فیصل آباد میں محدثِ اعظم پاکستان حضرت شیخ الحدیث مولانا سردار احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دورۂ حدیث مکمّل کیا اور اُن کےمبارک ہاتھوں سےدستار بندی ہوئی، اورسندِ فراغ حاصل فرمائی۔(تعارف علمائے اہلِ سنّت، ص 40)

بیعت وخلافت: دورانِ تعلیم سلسلۂ عالیہ اُویسیہ میں حضرت محکم الدین سیرانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کےسجادہ نشیں،حضرت مولانا خواجہ محمد الدین سیرانی علیہ الرحمۃ کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اُن کےوصال کےبعد حضرت علامہ مولانا حسن علی رضوی کےتوسّط سے شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتیِ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا شاہ محمد مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمۃ کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔حضرت مفتیِ اعظم ہند نےسلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کی خلافت واجازت عطافرمائی۔

سیرت وخصائص: فیضِ ملّت،مفسرِ اعظم پاکستان،مصنّفِ اعظم،صاحبِ تصانیفِ کثیرہ،شیخ التفسیر والحدیث حضرت علامہ مولانا مفتی محمد فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔حضرت قبلہ فیض احمد اویسی علیہ الرحمۃ اپنے وقت کےجیّد عالم ِ دین،عظیم مصنّف،مایۂ ناز مدرّس، اوربےمثال محقق تھے۔ ساری زندگی اشاعت ِ دینِ مصطفیٰﷺ میں بسر فرمائی؛ پاکستان میں مختلف مقامات پر، دُروسِ قرآن وحدیث کاسلسلہ شروع فرمایا، جوآخری دم تک برقرار رہا۔ بہاولپور کےدوردراز اور پسماندہ علاقے میں دینی مدرسے کی بنیاد ڈالی جس کانام ’’مدرسۂ منبع الفیوض‘‘ رکھا، جس میں حفظِ قرآن،اور دینی کتب کی تعلیم فی سبیل اللہ دی جاتی؛ دوردراز علاقوں سےطلبہ اپنی علمی پیاس بجھانےکےلیے اس مدرسے میں آنےلگے، دیہات کےماحول میں ان کا انتظام بہت مشکل تھا، لیکن اس ویران مقام میں علما وحفّاظ وقراء کی جماعت تیار فرمائی جوآج پوری دنیا میں خدمتِ دینِ متین اور ترویج واشاعتِ مسلکِ حق میں مصروف ہیں۔ 1963ء میں حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃنےبہاولپور میں جامعہ اویسیہ رضویہ اور جامع مسجد سیرانی کی بنیاد رکھی، جو  الحمد للہ اس وقت اہلِ سنّت کی عظیم دینی درس گاہ ہے، جہاں تمام مروّجہ علوم کی معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ اِن کےعلاوہ مختلف مقامات پر درجنوں مدارس آپ کی زیرِنگرانی چلتے رہے اور اب آپ کی اولاد وتلامذہ ان کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ تصنیف وتالیف اور تدریس کےعلاوہ، حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ ملکی سیاست سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے، چناں چہ آپ مملکت ِخدا داد پاکستان میں نفاذِ نظامِ مصطفیٰﷺو تحفّظِ مقامِ مصطفیٰ ﷺ کی خاطر قائدِ اہلِ سنّت مولانا شاہ احمد نورانی صدّیقی علیہ الرحمۃ کی قیادت میں مصروفِ عمل اور جمعیت سے منسلک رہے۔(تعارف علمائے اہلِ سنّت، ص40)

حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ اپنے وقت کےایک مایۂ ناز مدرّس تھے؛ آپ کو تمام کتب اور تمام علوم وفنون میں یک ساں مہارتِ تامّہ حاصل تھی۔ کوئی بھی کتاب اُن کےسامنے مشکل نہ تھی، آپ کی تدریس کاانداز ایساسہل اور دل نشیں تھا کہ غبی ومبتدی طلبہ بھی بآسانی سمجھ لیتے تھے۔تعلیم کےساتھ تربیت اور طلبہ کی ذہن سازی بھی فرماتے تھے، طلبہ میں دینِ متین کی خدمت کاجذبہ اور تصلّب فی الدین، مسلکِ حق کی خدمت فی سبیل اللہ کرنے کاجذبہ اور علما وطلبہ میں خودداری،تقویٰ وخلوص کوٹ کوٹ کر بھر دیتےتھے۔ حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ ایک سچے عاشقِ رسولﷺ تھے، بلکہ فنا فی الرسول ﷺ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہرسال ماہ ِرمضان دیارِ مصطفیٰ ﷺ میں گزارتے تھے۔ جب رسول اللہﷺ کا ذکر شریف، یا مدینۂ منوّرہ کی یادیں تازہ ہوتیں تو آنکھوں سے موتیوں کی برسات شروع ہوجاتی،اور دیکھنے والے جانتے ہیں کہ عشق ِمصطفیٰﷺ اور یادِ مدینہ میں ایسے بےقرار رہتے تھے،جیسے ماہیِ بےآب،اور حقیقتاً یہی زندگی اور یہی بندگی ہے۔ جب اپنا نام تحریر کرتےتواس طرح تحریر کرتے: ’’مدینے کابھکاری، فقیر فیض احمد اویسی غُفِرَلَہٗ‘‘۔ ایسابڑا مصنّف،جن کےہزاروں شاگرد ومریدین ہوں، لیکن سادگی ایسی تھی کہ اکابرین کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔فی زمانہ تمام دینی شعبہ جات میں بقول’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ القاب کی بہتات ہے، اِلَّامَاشَآءَ اللہ؛مگر حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ کےہاں ایسےالقاب کی کوئی رو رعایت نہیں تھی۔ دنیاوی آلائشوں سے دامن بچاکر آپ مقصدِ حیات میں کامیاب رہے۔ تدریس کےساتھ ساتھ، وعظ ونصیحت،مختلف مقامات پر مُناظروں کے چیلنج قبول کرکے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کےلیے مناظرہ کرنا،اور اپناوقت بچاکرتحریر وتصنیف میں مصروف رہنا، یہ اس پرفتن اور نفسانفسی کےعالم میں علما کےلیے ایک مشعلِ راہ ہے۔ حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ واقعی فیضِ ملّت تھے۔ کون سا ایسا موضوع اور کون سا ایسا فن ہےجس میں حضرت نےقلم کشائی نہ فرمائی ہو۔ تمام مروّجہ علوم وفنون،عربی وفارسی زبان میں کتب کااردو ترجمہ،اورقدیم و جدیدموضوعات پر تقریبا ًپانچ ہزار کتب تصنیف فرمائی ہیں؛ بلکہ موجودہ وقت میں یہ آپ کاعالمی ریکارڈ بھی ہے۔ حضرت فیضِ ملّت علیہ الرحمۃ کی زندگی آج کےنوجوان علما وطلبہ کےلیے مشعلِ راہ ہے کہ خلوص وللہیت سے دین کی خدمت، تدریس،تصنیف،کےساتھ دینی مدارس کاقیام اہل سنّت کے بقا وعروج کےلیے لازم ہے۔ اگر تمام علما مقدور بھر کوشش کریں تو کوئی بعید نہیں کہ اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی ہر طرف دین کی بہاریں نظر آئیں گی۔

تاریخِ وصال: آپ کاوصالِ باکمال 15؍رمضان المبارک 1431ھ مطابق 26؍ اگست 2010ء ،بروز جمعرات،بوقت 6:15صبح جامعہ اویسیہ رضویہ بہاولپور میں ہوا۔ جامعہ  ہی میں ابدی آرام فرماہیں۔

ماخذ ومراجع: تعارف علمائے  اہلِ سنّت؛مظلوم مصنّف۔

فیضِ ملت، مفسر اعظم پاکستان حضرت علامہ فیض احمد اویسی کی قلمی خدمات ملاحظہ کرنےکے لئے یہاں کلک کریں

Menu